جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے گورنر ہاؤس کو کے الیکٹرک کا دوسرا ہیڈ کوارٹر قرار دے دیا۔

کراچی میں گورنر ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے شہر میں بارش کے دوران اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت گورنر ہاؤس کے الیکٹرک کا دوسرا ہیڈ کوارٹر ہے، میڈیا سے بچنے کے لیے گورنر سندھ مرکزی دروازے کے بجائے عقبی راستے سے گورنر ہاؤس میں داخل ہوئے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں مون سون کا چوتھا اسپیل: بارشوں اور سیلاب سے 3 روز میں 50 افراد جاں بحق

حافظ نعیم نے وضاحت کی کہ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک کے حوالے سے ریمارکس دیے اور چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) کو طلب بھی کیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی محسوس کررہی ہے کہ کراچی میں کرنٹ سے ہونے والی ہلاکتوں میں کے الیکٹرک کی غفلت ہی نہیں بلکہ مجرمانہ رویہ بھی شامل ہے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ پچھلے دو برس میں 50 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، نیپرا نے ان ہلاکتوں پر کے الیکٹرک پر جرمانہ عائد کیا اور متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا لیکن کے الیکٹرک نے نیپرا کے احکامات ہوا میں اڑا دیے اور وہ عدالت میں چلے گئے یوں معاملہ التوا کا شکار ہوگیا۔

واضح رہے کہ آج (10 اگست) کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کراچی میں لوڈشیڈنگ پر ریمارکس دیے تھے کہ شہر میں جاری لوڈشیڈنگ اور کرنٹ لگنے سے ہونے والی اموات کا ذمہ دار کون ہے، سی ای او کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ بننا چاہیے، کے الیکٹرک کی انتظامیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ شہر میں گھنٹوں گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ جارہی ہے، کے الیکڑک کے سربراہ کہاں ہیں؟ شہر میں بجلی کا ترسیلی نظام خراب ہوچکا ہے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم نے کہا کہ کے الیکٹرک کے ملازمین اور سی ای او، ابراج گروپ کے عارف نقوی سمیت وفاقی حکومت بھی ہلاکتوں کی براہ راست ذمہ دار ہے کیونکہ وفاقی حکومت کے 24.6 فیصد شیئرز ہیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ ایک ماہ قبل 11 جولائی کو کے الیکٹرک کے سی ای او نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر، وزیر توانائی عمر ایوب، گورنر سندھ عمران اسمٰعیل سے ملاقات کی تھی جس کے بعد اسد عمر نے کہا تھا کہ اب کراچی میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی لیکن صورتحال مزید بدترین ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں شدید گرمی کے بعد تیز بارش، کرنٹ لگنے سے ایک شخص جاں بحق

انہوں نے کہا کہ اسد عمر نے کے الیکٹرک کے مجرمانہ رویے پر مزید کہا تھا کہ کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لے سکتے ہیں تو اب کس بات کا انتظار ہے۔

حافظ نعیم نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر پر کڑی تنقید کی جو اس گورکھ دھندے میں برابر کے شریک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی موجودہ بحران اور ہلاکتوں کی برابر ذمہ دار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور متحدہ قومی موومنٹ نے مل کر ادارے کو بیچا اور بعد میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ایک مرتبہ پھر دوسرے ادارے کو فروخت کیا۔

حافظ نعیم نے کہا کہ ’کے الیکٹرک کو گیس اور آئل کی ترسیل مکمل مل کررہی لیکن ان کی من مانیوں کا کوئی جواب دہ نہیں ہے، ہمارے دھرنے کی وجہ سے کے الیکٹرک نے ٹیرف میں اضافے کا فیصلہ مؤخر کیا گیا لیکن اگلے روز ہی وزیراعظم عمران خان نے مراحلہ وار ٹیرف میں اضافے کی اجازت دے دی، جس پر انہیں شرم آنی چاہیے‘۔

انہوں نے خبردار کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے الیکٹرک کی مالک کمپنی ابراج گروپ، عارف نقوی اور ان کے ساتھیوں کو ’راہ فرار کا محفوظ راستہ‘ دینا چاہتی ہے اور ایک نئی کمپنی کو مذکورہ کمپنی کو تھمادی جائے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ ’ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، ایسا کوئی بھی کام وفاقی حکومت نے کیا اور قوم کے پیسے کھائے تو ہم اس تحریک کو بہت تیز تر کردیں گے‘۔

مزیدپڑھیں: کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش، 6 افراد جاں بحق، بیشتر علاقوں سے بجلی غائب

کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازمت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کے پی ٹی میں 361 ملازمتوں کو کوٹہ سسٹم کے تحت صوبے کے دیگر اضلاع کے لیے مختص کردی گئی ہیں جس میں کراچی کے لیے ایک نشست بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو ملازمت نہ دینے کا فیصلہ پیپلز پارٹی نے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے کیا ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ’کراچی کے نالوں کے اطراف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے قبضے کرائے ہیں‘۔

حافظ نعیم نے کہا کہ سب سے زیادہ قبضے 2005 سے 2009 میں قبضے ہوئے جب ایم کیو ایم کے پاس صوبائی اور وفاقی حکومت تھی۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات کی تقسیم برابر نہ ہونے تک مسائل دور نہیں ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں