چائلد پورنوگرافی کے سب سے زیادہ کیسز رواں سال رپورٹ ہوئے، ایف آئی اے

اپ ڈیٹ 11 اگست 2020
حکام کے مطابق زیادہ تر پورنو گرافی کیسز میں انفرادی طور پر لوگ ملوث ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
حکام کے مطابق زیادہ تر پورنو گرافی کیسز میں انفرادی طور پر لوگ ملوث ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تحفظ اطفال کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پورونو گرافی کے کیسز سب سے زیادہ رواں سال کے دوران رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور اب تک 13 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے تحفظ اطفال کا اجلاس سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے بچوں کی فحش ویڈیوز کے معاملے پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔

سائبر کرائم حکام نے کہا کہ پاکستان کو چائلڈ پورنو گرافی کو اپ لوڈ کرنے اور ڈاون لوڈ کرنے والوں کا ڈیٹا ملنا شروع ہوگیا ہے اور معلومات کے مطابق زیادہ تر پورنو گرافی کیسز میں انفرادی طور پر لوگ ملوث ہیں۔

حکام نے کہا کہ پورنو گرافی کیسز کی تفصیلات اکٹھا کرنے کا عمل شروع کردیا ہے اور پورنو گرافی میں مبینہ طور پر ملوث افراد کی تفصیلات متعلقہ تھانوں کو بھی فراہم کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا چائلڈ پورنوگرافی نیٹ ورک بے نقاب

ان کا کہنا تھا کہ اس سال پورونو گرافی کے کیسز سب سے زیادہ رجسٹرڈ ہوئے ہیں، پاکستان میں 2017 میں پورنو گرافی کے 2، 2018 کے 7، 2019 میں پانچ اور 2020 میں تاحال 13 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

اجلاس کے دوران مانسہرہ میں مدرسے میں بچے کے ساتھ زیادتی کا معاملہ زیر غور آیا جس پر ایبٹ آباد پولیس حکام نے بریفنگ دی۔

ایبٹ آباد پولیس کے مطابق مانسہرہ میں بچے سے زیادتی کا ملزم طارق شمس الدین جیل میں ہے اور اس کی ہائی کورٹ سے ضمانت مسترد ہو گئی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ ملزم نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا اور مانسہرہ زیادتی کیس کی دوبارہ سماعت 22 ستمبر کو ہو گی۔

مزید پڑھیں: کراچی: چائلڈ پورنوگرافی کے الزام میں ایک شخص گرفتار، قابل اعتراض ویڈیوز برآمد

اس سلسلے میں مزید بتایا گیا کہ زیادتی کا شکار ہونے والا بچہ کوہستان میں اپنے والدین کے ساتھ ہے، بچے کا علاج بھی کرایا گیا اور دیگر سیشن بھی کرائے گئے ہیں، بچہ اب ٹھیک حالات میں ہے۔

پولیس نے کہا کہ خاندان پر دباؤ نہ ڈالا گیا تو ملزم کو سزا ہو جائے گی۔

دوران اجلاس نوشہرہ میں بچی سے زیادتی اور قتل کیس کا معاملہ بھی زیر غور آیا جس میں نوشہرہ پولیس حکام نے بریفنگ دی۔

پولیس نے بتایا کہ بچی کو قتل کے بعد ملزمان نے بچی کو پانی کے ٹینک میں ڈبو دیا تھا اور بچی کو پانی کے ٹینک میں ڈبونے میں معاونت کرنے والے ملزم کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس حکام نے بتایا کہ بچی کے قتل میں ملوث دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ان کی ضمانت مسترد ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک گیر کریک ڈاؤن میں چائلڈ پورنوگرافی کے 3 ملزمان گرفتار

انہوں نے بتایا کہ لاش ڈبونے میں معاونت کرنے والے شخص نے پولیس کے سامنے اقرار جرم کیا لیکن عدالت میں انکار کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 18سالہ ملزم بچی کے گھر میں ملازم تھا اور اس نے بچی سے جسمانی زیادتی کا اعتراف کیا۔

پولیس کے مطابق ملزم نے کہا کہ بچی کا ماموں مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا تھا اس لیے بدلہ لیا اور اس نے بچی کو گلیٹر (چمک) دکھا کر پھنسایا جبکہ بچی کی موت گلا دبانے سے ہوئی۔

حکام نے بتایا کہ بچی کی زیادتی کی ڈی این اے رپورٹ منفی آئی اور لاش پانی میں ڈوبنے سے جنسی زیادتی کے اثرات دھل گئے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر محمد جاوید عباسی نے پولیس سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ بچی کو ڈبوتے ہوئے دیکھا گیا تو لاش پانچ سات منٹ میں نکل آئی ہو گی، ایسے میں ڈی این اے کا ضائع ہونا ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں: چائلڈ پورنوگرافی کے مجرم کی اپیل مسترد، سزا برقرار

اس پر پولیس حکام نے بتایا کہ ملزم نے بچی سے زیادتی کا اعتراف کیا اور بچی کی رپورٹ سے واضح ہے کہ وہ پہلے بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکی تھی۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ نوشہرہ ڈی ایچ کیو کی لیڈی ڈاکٹر نے بچی کا پوسٹ مارٹم کرنے سے انکار کیا، نوشہرہ ڈی ایچ کیو کی لیڈی ڈاکٹر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی، اس نے کیوں پوسٹ مارٹم سے معذرت کی۔

اس پر پولیس حکام نے کہا کہ ہم پوسٹ مارٹم سے انکار کرنے والی ڈاکٹر کے خلاف ایکشن کا معاملہ دیکھ لیں گے۔

اجلاس کی سربراہی کرنے والی روبینہ خالد نے مزید کہا کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے کیسز میں ریاست کو مدعی بننا چاہیے کیونکہ ایسے کیسز میں والدین پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں