وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک میں توانائی کے بحران کو کنٹرول کرنے کے لیے 20 فیصد رینیو ایبل انرجی (قابل تجدید توانائی) پالیسی پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر، وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ’میری کوشش تھی کہ وزارت توانائی کے ساتھ مل کر 30 فیصد قابل تجدید توانائی پر انحصار کی پالیسی اپنائی جائے‘۔

مزید پڑھیں: کراچی کو گیس، بجلی کی فراہمی میں بہتری کی یقین دہانی

انہوں نے کہا کہ ’قابل تحسین اقدام یہ ہے کہ مذکورہ پالیسی کے تحت اس کی اشیا پر تمام ٹیکس اور ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے‘۔

فواد چوہدری نے مذکورہ افدام کی افادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’چین اور امریکا کے مابین تجاری کشیدگی جاری ہے جس کے بعد بیجنگ کو اپنے تجارتی مقاصد کے لیے نئی منڈی درکار ہے اور پاکستان اسے صنعت سازی کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس طرح مقامی سطح پر میونسپل کمیٹی اور لوکل باڈیز اپنی بھی بجلی پیدا کرسکیں گی، سولر سیلز مقامی صنعت میں تیار ہوں گے اور چھوٹے شہر اپنے سہولت کے مطابق توانائی کا نظام تشکیل دیں اور ترسیل شروع کردیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی بحران: کے-الیکٹرک سسٹم اپ گریڈنگ میں ناکامی پر مسائل کا شکار ہے، وزارت توانائی

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کہا کہ وزارت توانائی کی مشاورت کے بعد ہم کوشش کررہے ہیں کہ پہلے سولر اور اس کے بعد ونڈ پاور کو عام کریں کیونکہ ملک میں قابل تجدید توانائی کو فعال کرنے کے لیے تمام قدرتی وسائل موجود ہیں۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ مذکورہ پالیسی کے تحت آئندہ 15 برس میں بجلی کی دستیابی اور اس کی قیمت میں نمایاں فرق ہوگا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کی بدولت میں ہم بجلی درآمد بھی کرسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں عمومی رویہ ہے کہ ملک میں تیار ہونے والی چیز برآمد کے مقابلے میں مہنگی ہو، برآمدکنندہ گان کا مافیا ہر شعبے میں موجود ہے۔

سابقہ حکومتوں نے عالمی منڈی سے برآمد شدہ تیل پر توانائی کے بحران کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان کے تعلقات کی تاریخ محض چند برس پر مشتمل نہیں اس لیے کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے کہ ان سے تعلقات خراب ہوں لیکن ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

مزیدپڑھیں: نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں بجلی کے نرخ بڑھا دیے

سولر پینل کے معیار سے متعلق سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ ’ہم نے پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کو مضبوط کیا ہے اور ایک مرتبہ ٹیکنالوجی پاکستان منتقل ہوجائے تو معیار کو برقرار رکھنے میں زیادہ محنت درکار نہیں ہوگی‘۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ کووڈ 19 سے قبل دنیا کی بڑی کمپینوں نے پاکستان میں سولر اور ونڈ پاور کی مینیوفیکچرنگ پر خواہش ظاہر کی ہے، جب پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی صنعت سازی شروع ہوگی تو پورے خطے کو فائدہ پہنچے گا۔

عمر ایوب نے کہا کہ قابل تجدید توانائی 2025 تک 8 ہزار میگا واٹ تک جائے گا، بجلی کے کارخانوں کا فائدہ آئندہ دو برس میں پہنچے گا، موجودہ دور میں مہنگی بجلی کی وجہ ماضی میں فیول کے مہنگے معاہدوں کا شاخسانہ ہے۔

خیال رہے کہ 2018 میں ابوظہبی سے تعلق رکھنے والی انٹرنیشنل رینیویبل انرجی ایجنسی (آئی آر ای این اے) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کہ پاکستان میں سستی اور متبادل توانائی کے فروغ کے لیے سرمایہ کاروں کو سیاسی طور پر مطمئن کرنے کی ضرورت ہے اور توانائی کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں پن چکی سے 50 گیگا واٹ توانائی حاصل کی جاسکتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہر سال پیدا ہونے والے ڈھائی کروڑ ٹن صنعتی اور ذرعی فضلے کو بھی توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

آئی آر ای این اے کی رپورٹ کے مطابق متبادل توانائی کے معیار، حصول اور تقسیم کے مضبوط اہداف مقرر کرنے کیے پارلیمنٹ سے ایک ایکٹ منظور کرایا جائے تاکہ سرمایہ کاروں کو اس بات کا اطمینان ہو کہ بدلتی سیاسی صورتحال میں وہ متاثر نہیں ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں