کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو مشکل وقت میں اکٹھا کرنے کے بجائے مزید تقسیم کردیا ہے اور اس تقسیم کے اثرات پوری دنیا بالخصوص امریکا- چین تعلقات پر کئی ہفتوں سے دیکھے جارہے تھے، لیکن اب یہ اثرات جنوبی ایشیا بلکہ امریکی اصطلاح میں انڈوپیسفک کہلانے والے پورے خطے پر نمایاں ہوکر سامنے آرہے ہیں۔

پاکستان میں اس کے اثرات وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان سے ابھر کر سامنے آئے جس میں انہوں نے کہا کہ او آئی سی آنکھ مچولی اور بچ بچاؤ کی پالیسی نہ کھیلے، کانفرنس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اگر یہ نہیں بلایا جاتا تو میں وزیرِاعظم سے کہوں گا کہ پاکستان ایسے ممالک کا اجلاس خود بلائے جو کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں جس کی سالمیت اور خود مختاری کی خاطر ہر پاکستانی لڑ مرنے کے لیے تیار ہے، لیکن ساتھ وہ آپ سے یہ تقاضا بھی کررہے ہیں کہ آپ بھی وہ قائدانہ صلاحیت اور کردار ادا کریں جس کی امت مسلمہ کو آپ سے توقع ہے‘۔

اس بیان کے ساتھ ہی یہ خبریں سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ سعودی عرب نے پاکستان کو نومبر 2018ء میں ایک معاہدے کے تحت دیے گئے 3 ارب ڈالر نقد میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لیے اور پاکستان نے چین سے رقم قرض لے کر سعودی عرب کو لوٹا دی۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بقایا 2 ارب ڈالر بھی واپس کرنا ہوں گے اور ادھار تیل کی سہولت کا معاہدہ بھی مئی میں ختم ہوچکا ہے اور پاکستان اس معاہدے کی تجدید چاہتا ہے لیکن جواب نہیں مل رہا۔

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان اور ان اطلاعات کے بعد یہ سمجھا جارہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پہلی بار پست ترین سطح پر چلے گئے ہیں اور شاید دونوں ملکوں کا بھائی چارہ داؤ پر لگ چکا ہے۔

سوشل میڈیا کے انقلابی اس صورتحال کو اپنے انداز سے بیان کر رہے ہیں اور شاہ محمود کے بیان کو پاکستان کی پہلی آزاد خارجہ پالیسی کی طرف پہلا قدم بتا رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: کیا سعودی بادشاہت کا خاتمہ قریب آگیا؟

لیکن ملکوں کے تعلقات کو جذباتی انداز سے دیکھنا اور سمجھنا بنیادی غلطی ہے۔ اوّل تو پاکستان اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے تعلقات پہلی بار تناؤ کا شکار نہیں ہوئے اور اس تناؤ کو باقی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور پیشرفت سے الگ رکھ کر دیکھنا ناسمجھی ہوگی۔ جہاں تک پہلی آزاد خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو پالیسیاں وقت کے ساتھ تشکیل پاتی ہیں اور اسی اعتبار سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی بھی حکومتوں کی تبدیلی مستقل ریاستی پالیسی پر اثرانداز نہیں ہوتی۔

ابھی زیادہ پرانی بات نہیں جب 2010ء میں وکی لیکس نے امریکی سفارتی مراسلے شائع کیے تھے اور انکشاف ہوا تھا کہ اس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ، پاکستان کے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو شدید ناپسند کرتے ہیں اور ان کے لیے کرپٹ کا لقب استعمال کرتے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں ایران سے قربت سعودی شاہوں کے مزاج کو ناگوار تھی، تب بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گرم جوشی پہلے جیسی نہیں تھی۔

صورتحال اس حد تک خراب ہوچکی تھی کہ شاہ عبداللہ نے پاکستان میں فوجی حکومت کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔ درحقیقت یہ ناپسندیدگی دو حکمرانوں کے درمیان معاملہ تھا اور ریاستوں کی پالیسی نہیں بدلی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی حکمرانوں کے درمیان معاملات پرانی ڈگر پر آگئے تھے اور سعودی عرب نے قرض کے بجائے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ یا گرانٹ دی تھی۔

تحریک انصاف کی حکومت بنی تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ان کے سعودی روابط کمزور ہیں اور شاید انہیں کچھ مدد نہ مل پائے لیکن 3 ارب ڈالر قرض کے ساتھ 3 ارب ڈالر ادھار تیل مل گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نومبر 2018ء سے اگست 2020ء کے دوران ایسا کیا ہوا کہ پہلی بار پاکستان کے وزیرِ خارجہ کو سعودی عرب کے خلاف سرِعام بولنا پڑا؟

مزید پڑھیے: وزیراعظم عمران خان اچانک سعودی عرب کیوں گئے؟

دسمبر 2019ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کشمکش کی کہانی سامنے آئی جب کوالالمپور میں ہونے والی 5 ملکی سربراہ کانفرنس سے پاکستان سعودی دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا۔ کوالالمپور میں پاکستان، ترکی، قطر اور ایران کے سربراہان کو بلایا گیا تھا اور اس اجلاس کو او آئی سی کے متبادل پلیٹ فارم کی تشکیل کی جانب پیشرفت سمجھا جارہا تھا۔

پاکستان پر سعودی دباؤ کی کہانی ترک صدر رجب طیب اردوان کی زبانی سامنے آئی تھی اور پھر تفصیل نکلتی چلی گئی۔ اس ممکنہ اتحاد کو واشنگٹن میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا تھا اور مالی مسائل کے شکار پاکستان کو سعودی عرب کا دباؤ سہنا پڑا۔

عرب خلیجی ریاستیں قدامت پسند شاہی نظام پر کھڑی ہیں جبکہ گیس کی دولت سے مالا مال قطر، مسلم آبادی والا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا، یورپی یونین میں شمولیت سے بیزار جدید ترکی اور مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت پاکستان خود کو مسلم دنیا میں قائدانہ کردار کے ساتھ دیکھتے ہیں۔

ترکی اور قطر کا اتحاد نیا نہیں لیکن عرب دنیا نے جب قطر کا مقاطعہ کیا تو ترکی کھل کر قطر کے ساتھ کھڑا ہوا اور اس اتحاد کو زیادہ مؤثر انداز سے دیکھا اور سمجھا گیا۔

قطر اور ایران کے گیس ذخائر سانجھے ہیں اور ان کا تعلق بھی اٹوٹ سمجھا جاتا ہے۔ عرب دنیا کی طرف سے مقاطعہ کے اعلان سے پہلے بھی قطر اور ایران کے تعلقات پُرجوش رہے ہیں۔ قطر عرب بادشاہتوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہے، جبکہ ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے ہی اچھے نہیں اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ترکی نے سی آئی اے سمیت کئی دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سعودی قونصل خانے کی ٹیپس تک رسائی دے کر جو زک پہنچائی تھی وہ بھی ابھی تک سعودی یادداشت سے محو نہیں ہوئی۔

مزید پڑھیے: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات میں ترکی کا اپنا ایک کردار رہا ہے۔ شام اور لیبیا میں ترکی اب بھی متحرک کھلاڑی ہے اور عرب بادشاہتوں کے مقابل کھڑا ہے۔ شام میں ترکی اگرچہ روس کے مقابل ہے لیکن روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم خرید چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں ترکی روس سے جدید لڑاکا طیارے سخوئی ففٹی سیون بھی خرید سکتا ہے، جس کے لیے اسے امریکا ایک طرح سے خود مجبور کر رہا ہے اور ترکی کو روس کی طرف دھکیل رہا ہے۔ کشمیر اور فلسطین پر ترکی کا مؤقف ڈھکا چھپا یا معذرت خواہانہ نہیں، اسی وجہ سے وہ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بگاڑ چکا ہے۔

پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ تقریباً تمام روابط توڑ چکا ہے اور امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش ایک ڈھکوسلا ثابت ہوچکی ہے۔

لداخ میں چین بھارت تصادم کے بعد امریکا کھل کر بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور چین کے مقابلے میں اسے خطے میں بھارت کی زیادہ ضرورت ہے، یوں برسوں سے اتار چڑھاؤ کے شکار اتحادی اسلام آباد اور واشنگٹن میں پہلے جیسی قربت نہیں رہی اور امریکا افغانستان سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان کی جس قدر مدد چاہتا تھا وہ پوری ہوچکی ہے۔

مزید پڑھیے: افغانستان کا مستقبل، امریکی عزائم اور پاکستان کے لیے امکانات

امریکا جلد سے جلد افغانستان سے پیچھا چھڑانے کے چکر میں ہے اور اسلام آباد کی طرف سے روس افغان جنگ کے بعد تنہا چھوڑ دیے جانے کے شکوؤں کو خاطر میں لانے کے موڈ میں نہیں۔

پاک امریکا تعلقات میں سعودی عرب ایک اہم عنصر تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ذاتی دوستی اور قربت کے باوجود واشنگٹن کے تعلقات ریاض کے ساتھ زیادہ گرم جوش نہیں۔ امریکی عدالت سعودی ولی عہد کو سابق سعودی انٹیلی جنس عہدیدار سعد الجبری کے مبیّنہ قتل منصوبے پر سمن جاری کرچکی ہے۔ اس سے پہلے امریکا سعودی عرب سے پیٹریاٹ میزائل بھی واپس منگوا چکا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا محمد بن سلمان نومبر تک بادشاہ بن جائیں گے؟

امریکی سی آئی اے کی سربراہ، جو ترکی میں امریکی سفیر بھی رہ چکی ہیں اور ترک زبان بھی جانتی ہیں، وہ سعودی ولی عہد کی بجائے سعد الجبری کی طرف دار ہیں۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں تو امریکا سعودی عرب تعلقات مزید بگاڑ کی طرف جائیں گے کیونکہ ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن جمال خاشقجی کیس میں سعودی حکام کو سبق سکھانے کے بیانات دے چکے ہیں۔

حال ہی میں چین ایران اسٹریٹجک معاہدے اور 400 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی خبریں شائع ہوئی ہیں جو خطے میں ایک اور بڑی تبدیلی ہے۔ ایران امریکی دباؤ اور پابندیوں کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں اگر چین پورے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہ بھی کرے تو چین کی طرف سے رقم کا سہارا اور ڈالر سے ہٹ کر تیل کی خریداری کا معاہدہ پابندیوں میں جکڑے تہران کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ اس معاہدے کی خاطر ایران اپنے پرانے دوست نئی دہلی کو بھی بھلا کر آگے بڑھ رہا ہے، یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہے۔

مزید پڑھیے: چاہ بہار ریلوے منصوبے سے بھارت کا انخلا: پاکستان کے لیے امکانات اور خدشات!

امریکا چین کشیدگی اور دو کیمپوں میں تقسیم ہوتی دنیا بھی نئے امکانات کے در وا کر رہی ہے۔ چین مشرق وسطیٰ میں بیک بنچر کا کردار چھوڑ کر متحرک ہونے کا اشارہ دے چکا ہے۔ شام کے ساتھ اس سال مارچ میں ہونے والا اقتصادی تعاون کا معاہدہ اس کا ثبوت ہے۔

امریکا خطے میں سیکیورٹی کا ضامن ہونے کے کردار سے خود دستبردار ہو رہا ہے اور سعودی عرب سے سیکیورٹی کے بدلے مزید رقوم کا تقاضا کرتا آرہا ہے۔

چین مشرق وسطیٰ میں تنازعات میں فریق بننے یا انہیں حل کرنے کے بجائے تصادم رکوانے کی پالیسی اپنائے گا۔ امریکا کی دستبرداری اور چین کا متحرک کردار عرب ملکوں کو نئے اتحاد اور دوستوں کی تلاش پر مجبور کر رہا ہے۔ چین اپنی پالیسی کے تحت عرب ملکوں کے درمیان عدم جارحیت کے معاہدوں پر توجہ دے گا۔ کورونا وائرس کی وبا اور تیل قیمتوں میں کمی کے سبب دباؤ کے شکار خلیجی ممالک تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں، وہ موجودہ معاشی حالات میں ایران کے ساتھ تصادم کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور ناقابلِ اعتماد امریکا کی خاطر اپنی معیشت کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔

ان حالات میں کئی خلیجی ملک چین کی طرف سے ایران کے ساتھ عدم جارحیت کے معاہدوں اور ضمانت کو قبول کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ عدم جارحیت کے معاہدوں اور مشرق وسطیٰ کی سیکیورٹی کے نئے ڈیزائن پر چین اور روس ہم خیال ہیں۔

خطے میں بنتے نئے اتحاد موجودہ پاک سعودی کشمکش کی وجہ بن رہے ہیں۔ پاکستان کی اپنی معاشی اور سیکیورٹی ضروریات ہیں، اور سعودی عرب اس وقت کئی طرح کے مسائل سے نمٹ رہا ہے، جن میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے۔ خراب صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کبھی ٹیکس فری کہلانے والا ملک اس وقت ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرچکا ہے۔ محصولات کی مد میں اس کی آمدن 22 فیصد کم ہوئی ہے۔ پھر سعودی عرب تیل کی دولت پر مستقل انحصار ختم کرکے نئے شعبوں کی تلاش میں ہے اور کبھی ملازمتیں نہ کرنے والے سعودی شہریوں کو ملازمت کے لیے مواقع فراہم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

پاک سعودی بھائی چارہ ختم ہونے اور انقلابی خارجہ پالیسی کے دعوے کرنے والے ابھی محتاط رہیں، کیونکہ مستقل طور پر امریکی کیمپ میں رہنے والوں کو کیمپ چھوڑنا پڑسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی گرفت سے چھٹکارا ناممکن ہوجائے۔ یاد رہے کہ دنیا میں ہونے والی نئی صف بندی میں ابھی کئی مہرے بڑھائے جائیں گے اور کئی بڑھا کر واپس کھینچ لئے جائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں