بھارت میں توہین رسالت کے واقعے سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 13 اگست 2020
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ اندرونی مسئلہ نہیں ہے یہ انسانیت کا مسئلہ ہے—تصویر: فیس بک
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ اندرونی مسئلہ نہیں ہے یہ انسانیت کا مسئلہ ہے—تصویر: فیس بک

بھارت کے شہر بینگلورو میں سوشل میڈیا پر پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ سے متعلق گستاخانہ پوسٹ کے بارے میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ توہین رسالت کے دل خراش واقعے نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو کو پوری امت مسلمہ کو دیکھنا چاہیے، بھارت میں آج مسلمان اقلیت محفوظ نہیں ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ جذبات بھی مسلمانوں کے مجروح کرتے ہیں اور شہادتیں بھی مسلمانوں کی ہوتی ہیں جبکہ مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں فیس بک پر گستاخانہ پوسٹ کے معاملے پر پاکستان کا شدید احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ مسجد کو شہید کر کے مندر بنانا قطعی طور پر درست نہیں سیکیولر ریاست کو بھارت کی اس حکومت نے دفن کردیا ہے، آج بھارت میں ایک ہندو ریاست جنم لے رہی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ اندرونی مسئلہ نہیں ہے یہ انسانیت کا مسئلہ ہے اور پاکستان کو حق حاصل ہے کہ اس معاملے کو اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کل بھارتی ہائی کمیشن کے حکام کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا تھا اور پاکستان کی طرف سے ردعمل کا اظہار کیا، ہم ہر انٹرنیشنل فورم پر اسلاموفوبیا کے مسئلے کو اٹھا رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جنرل اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں کی گئی تقریر میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کا تذکرہ موجود تھا اور جنرل اسمبلی کے نو منتخب صدر کے ساتھ ملاقات کے دوران میں نے یہ ایشو اٹھایا تھا۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کے اسلاموفوبیا کے تدارک سے متعلق بیان پر پاکستان کا خیرمقدم

خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان کی جانب سے دفتر خارجہ نے بھارت میں سوشل میڈیا میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے متعلق گستاخانہ پوسٹ کے خلاف شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'اسلام کے خلاف گستاخانہ پوسٹ سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے اور یہ بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کی عکاسی ہے'۔

دفترخارجہ نے کہا تھا کہ 'بھارتی پولیس نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت انگیز جرم کو روکنے کے بجائے فورس کا بدترین استعمال کرتے ہوئے 3 مظاہرین کو قتل اور کئی کو زخمی کردیا'۔

بھارت میں پیش آنے والے واقعے پر مزید کہا گیا تھا کہ 'مذکورہ علاقے میں مسلمان برادری پر توڑ پھوڑ اور پولیس اہلکاروں پر حملے کا جھوٹا بیان دیا جارہا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:او آئی سی کا اسلاموفوبیا سے نمٹنے، کشمیر کی خودمختاری کی حمایت کا اعادہ

دفترخارجہ کے مطابق 'بھارت میں مذہبی منافرت کے بڑھتے ہوئے واقعات براہ راست اور بلامبالغہ آر ایس ایس-بی جے پی کے مشترکہ ہندوتوا کے انتہاپسندانہ نظریے کا شاخسانہ ہے'۔

بھارت کو واضح کیا گیا کہ 'اس واقعے کو تشویش کے طور پر دیکھا گیا ہے اور پاکستان میں سول سوسائٹی نے بھارت میں مسلم اقلیت کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہے'۔

بھارت میں گستاخانہ پوسٹ کا معاملہ

بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کانگریس کے ایک ایم ایل اے اکھنڈا سرینواسا مورتھی کے قریبی عزیز کی جانب سے سوشل میڈیا سائٹ پر حضرت محمد ﷺ کے بارے میں 'توہین آمیز' پوسٹ کے بعد اشتعال پھیلا تاہم اس کے بعد مذکورہ پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا گیا۔

اس گستاخانہ پوسٹ کے بعد ایک ہجوم مقامی قانون ساز کے گھر کے باہر پہنچا اور 2 گاڑیوں کو آگ لگادی۔

پولیس کے مطابق مذکورہ معاملے میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی انڈیا (ایس ڈی پی آئی) سے تعلق رکھنے والے مزمل پاشا اور 6 دیگر لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔

دوسری جانب بینگلورو پولیس کے کمشنر کمال پنٹ نے ٹوئٹر پر پوسٹ میں بتایا کہ مذکورہ پوسٹ کرنے پر ایم ایل اے کے عزیز کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ اس کے ساتھ فسادات اور آتش زنی پر تقریباً 100 افراد کو بھی پکڑا گیا ہے اور اب صورتحال قابو میں ہے۔

واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بھارت میں اس طرح کے فسادات نے جنم لیا ہو بلکہ اس سے قبل بھی وہاں مذہبی فسادات رونما ہوچکے ہیں، جس میں زیادہ تر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

بھارت میں 2014 میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد اس طرح کے فسادات میں اضافہ ہوا ہے۔

رواں سال فروری میں بھی بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی مذہبی فسادات ہوئے تھے جس میں 50 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی جبکہ مسلمانوں کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں