جاں نثار اختر کا ایک شعر ہے

کوئی آسودہ نہیں اہلِ سیاست کے سِوا

یہ صدی دشمنِ اربابِ ہنر لگتی ہے

یہ دور دشمن اربابِ ہنر ہے یا نہیں مگر یہ برانڈ اور شوبز کا زمانہ تو ہے۔ کل کسی بھی چیز کے معیار اور اس کی پائیداری اور پختگی کی اہمیت ہوتی تھی اور ہم جس دور میں ہیں اس میں شو، شور یعنی نمائش اور ہنگامہ ہی اساسِ زندگی بن گیا ہے۔

ڈاکٹر راحت اندوری اسی دور کے ممتاز ترین شاعر تھے۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے جگر مراد آبادی کی مقبولیت اور شہرت کی خوب روداد سنی ہے، جگر کے بعد مشاعروں کی دنیا میں اگر کسی کو غیر معمولی اور تادیر مقبولیت ملی تو وہ راحت اندوری ہی کی شخصیت تھی۔

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان کی شہرت تمام اردو دنیا میں تھی، مگر یہ اردو دنیا وہ نہیں تھی جو جگر (مرادآبادی) کی تھی۔ جگر کے دور کی اردو دنیا ہر چند کہ محدود تھی مگر اس میں وقار اور اعتبار مستحکم تھا بلکہ انہیں اوصاف کو شخصیت کا جوہر مانا جاتا تھا، پھر جگر بھی بلا نوش تھے اور اس زمانے میں ہمارا معاشرہ نہایت مہذہب اور پاک و طاہر سمجھا جاتا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس مہذب سماج میں جگر کی شراب نوشی کے باوجود انہیں شرفا میں قبول ہی نہیں بلکہ عزت و تکریم بھی حاصل تھی، کس قدر متضاد بات ہے یہ، مگر ہے حقیقت۔

عجب اتفاق ہے جگر اور راحت اندوری میں کئی معاملات میں یکسانیت پائی جاتی ہے، مثلاً ابھی جگر کی مے نوشی کا ذکر ہوا تو راحت بھی بنتِ انگور کے اسیر تھے۔ اسی طرح جگر سیاہ صورت تھے تو اپنے جملوں میں مشہور ہندوستانی لیڈر آنجہانی جگ جیون رام کی رنگت رکھنے والے راحت اندوری بھی لوگوں کو اکثر ڈراتے تھے مگر جگر مرادآبادی کی سیاہ صورتی پر ان کے کردار کے اجالے اپنی چادر تانے ہوئے تھے۔ وہ جس زمانے میں عوام و خواص میں مقبول تھے تو وہ دور بھی اپنی خوبیوں کی بنا پر اس زمانے سے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد تھا۔ معمولی آدمی بھی اردو زبان کی نزاکتوں اور شعری ذوق سے مالامال تھا۔

ایک واقعہ

مجاز و سردار جعفری کا زمانہ تھا، ممبئی کے صابو صدیق گراؤنڈ پر عوامی مشاعرے کا اہتمام تھا جس میں (ہند۔پاک کی) مشہور شاعرہ سحاب قزلباش بھی شریک تھیں اور جب انہوں نے مشاعرے میں اپنا وہ شعر پڑھا جو بعد میں تمام دنیا میں مشہور ہوا تو وہ منظر اور اس کا تاثر ایک رنگ بکھیر گیا جس کے شیڈز آج تک لوگوں کے ذہن میں باقی ہیں

بجھ رہے ہیں چراغِ دیر و حرم

دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے

ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ شاعرہ کو اس شعر پر جو داد ملی تھی وہ ایک تاریخ بن گئی کہ مشاعرے کا پورا مجمع سحاب کی تکریم میں کھڑا ہوگیا تھا اور تادیر واہ واہ کا شور بلند ہوتا رہا۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اس دور کے عوام کا ذوق یا عصرِ حاضر کی اصطلاح میں لٹریسی اس قدر توانا و مستحکم تھی کہ وہ شعر دوسرے دن ٹیکسی ڈرائیوروں اور ہوٹل میں کام کرنے والوں کے کانوں تک جو پہنچا تو پھر ان سب کو ازبر ہوگیا اور اس طرح دوسری تیسری نسل تک سفر کرتا گیا۔ ہم نے کوئی 30 برس اُدھر سحاب قزلباش کا یہ شعر سنا تھا جو، اب تک ذہن و قلب کے گوشے میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے۔

اب جسے اردو کے زوال کا زمانہ کہا جاتا ہے، راحت اندوری اردو کے اس خرابے میں ہونے والے مشاعروں کے ایک ہیرو ہی تھے۔

قصاب برادری کا یہ پوت جس کا نام راحت اللہ قریشی تھا، ساتویں دہائی میں راحت اندوری کے نام سے معروف ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک دنیا کی راحت کا سبب بن گیا۔ ہم جو بیان کرنے جارہے ہیں وہ 5، 10 برس کی بات نہیں بلکہ 30 برس سے زائد مدت پرانا قصہ ہے۔

راحت اندوری مشاعروں میں ہی مشہور نہیں بلکہ عوام الناس میں بھی مقبول ہو رہے تھے اور ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ عوامی مشاعرے کے بعد راحت اندوری کو مشاعرے گاہ سے باہر نکلنا ایک دشوار معاملہ ہوجاتا تھا۔ ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے سیکڑوں مداح کا مجمع ہماری آنکھوں نے ایک بار نہیں کئی بار دیکھا ہے۔

وہ عام آدمی سے لے کر سنجیدہ سمجھے جانے والوں تک میں مقبول تھے۔ وہ جس طرح کانپور کی موتی جھیل کے گراؤنڈ میں ہونے والے عام مشاعرے کے سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے اسی طرح ہم نے دیکھا کہ دوحہ قطر کے فائی اسٹار ہوٹل میں موجود اردو کا ذوق رکھنے والوں میں بھی وہ اتنے ہی پسند کیے جاتے تھے۔ چونکہ ہم نے ان کا وہ زمانہ بھی دیکھا جب وہ معروف ہورہے تھے اور اِس دور کے بھی چشم دید گواہ ہیں جب وہ اردو مشاعروں کے ہیرو بن چکے تھے۔

ذہانت کے قبیل کا مگر ذرا ترچھے معنوں کا ایک لفظ ہے فطانت۔ راحت اندوری ان دونوں لفظوں کے معنوی اوصاف کے حامل شخص تھے۔ ہم ہندوستان کے کئی ایسے شعرا سے واقف ہیں جو شاعر کیا تھے شعر کہنے کی مشین تھے مگر ان کے پاس اپنے سامعین کو مطمئن کرنے کا حربہ نہیں تھا۔ ان کے پاس ترنم تو تھا مگر مُرکیوں سے وہ محروم تھے یا اگر تحت اللفظ شعر خوانی کرتے تھے تو اس میں ان کے پاس ’پرفارمنس‘ کا رنگ نہیں تھا۔ جب وہ مُرکیوں والے مترنم شاعروں کے مقابلے میں مشاعروں میں ناکام ثابت ہوئے تو انہوں نے اپنی ناکامی کا یہ انتقام لیا کہ ایک دو نہیں بلکہ کئی شاعر پیدا کردیے جو ترنم اور گائیکی کے فرق کو مٹا کر مشاعرے کے سامعین میں اپنی شناحت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

دورِ گزشتہ میں بیرونی مشاعروں میں سفر خرچ کے نام پر چھوٹی سی ایک رقم دیدی جاتی تھی اور جسے اعزازیہ سمجھ کر شاعر خوش بھی ہوجاتا تھا، پھر یوں ہوا کہ اس اعزازیے نے باقاعدہ معاوضے کی شکل اختیار کرلی۔ پھر ان شاعروں کا نصیب تو اس وقت روشن ہوا جب عرب کے خلیجی ممالک میں مشاعروں کی بِنا پڑی اور باقاعدہ جس نے انڈسٹری کی ایک شکل اختیار کرلی تو یوں ہوا کہ یہاں کے مشاعرے بھی مالی طور پر اپنی قدر و قیمت بنانے لگے۔ آزادی اور پھر تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اردو کی صورت جو بگڑی تو پھر سنبھلنے سے رہی لیکن اردو کے نام پر یہی مشاعرہ تھا جو اپنی کشش برقرار رکھے ہوئے تھا بلکہ یہ صورتحال اب بھی باقی ہے۔

مدھیہ پردیش کا شہر اندور کسی زمانے میں ایک ریاست رہا ہے تو وہاں شاعری ہی نہیں بلکہ دیگر فنونِ لطیفہ بھی پروان چڑھے۔ ہم نے راحت اندوری سے قبل کاشف اندوری، مضطر اندوری اور نور اندوری کو باقاعدہ سُن رکھا ہے، لہٰذا یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اندور کوئی (شعری) اسکول تھا یا نہیں مگر مجلسی شعرا کا ایک مرکز تو ضرور تھا۔

کاشف اندوری پُر گو اور نہایت زود گو واقع ہوئے تھے، سُنی سنائی نہیں بلکہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کلام سناتے ہوئے بھی اپنا مصرع یا شعر بدلنے پر قادر تھے اور ان کا پڑھنا بھی خوب تھا۔ اندور کے شعرا ترنم میں ایک کشید کے حامل ہوتے تھے۔ وہ ہم نے مضطر اندوری کے ہاں بھی دیکھا اور اس کی پختہ مثال نور اندوری تھے۔ نور اندوری ممبئی کے جس مشاعرے میں متعارف ہوئے تھے، برسوں پرانا وہ منظر آج بھی آنکھوں میں تازہ ہے۔ شعر کی کیفیت جو بھی تھی، مگر ان کے ترنم کے اتار چڑھاؤ نے سننے والوں پر جادو کر دیا تھا اور ان سے کئی برس پہلے مضطر اندوری اپنے ترنم ہی نہیں بلکہ اپنے اس شعر کے سبب اب بھی ذہن کے اضطراب کا سب بن جاتے ہیں

اِک بار پکارا تھا اس نے مجھے شوخی سے

برسوں میرے کانوں میں بجتی رہی شہنائی

یہی وہ زمانہ تھا جب عوام اردو کی خوبیوں ہی نہیں بلکہ زبان ہی سے دُوری اختیار کرنے لگے تھے جس میں یہاں کے سیاسی حالات اور اردو بولنے یا سمجھنے والوں کی اقتصادی حالت کا بھی دخل تھا اور آج بھی ہے مگر مشاعرے کی کشش ماند نہیں پڑی۔ مشاعروں کے نام پر گلی کوچوں، میدانوں میں ہزارہا آدمی کا مجمع لگ جانا عام سی بات تھی اور ہے۔

مگر عام طور پر شعر یا سخن فہمی یقیناً پردہ کر رہی تھی مگر یہ بات کلیہ تو نہیں بنی کیونکہ ایسے عوامی مشاعرے بھی کم کم سہی مگر ہوتے تھے جن میں علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، جاں نثار اختر اور اختر الایمان جیسے شعرا بھی پوری توجہ سے سنے جاتے تھے اور انہیں حسبِ کلام داد بھی ملتی تھی مگر عمومی یا عوامی مشاعروں کی حالت دگرگوں تھی جس نے بگڑتے وقت کے ساتھ ’ترقی‘ کرلی۔

راحت اندوری جو اپنے زمانے میں اندور کے ممتاز استاد قیصر اندوری کے شاگرد تھے اور باقاعدہ راحت قیصری کے نام سے معروف بھی ہورہے تھے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ ابتدا میں راحت ترنم ہی سے کلام سناتے تھے مگر جیسا کہ بتایا گیا کہ وہ ذہانت کے ساتھ فطانت جیسے وصف کے بھی حامل تھے سو انہوں نے اپنی راہ الگ نکالنے کی کوشش کی اور عوامی مشاعروں میں اپنا کلام تحت اللفظ پڑھنے کی ایک عجب طرز نکالی جسے ہمارے جیسے لوگ ’پرفارمنس‘ کہتے ہیں۔

مشاعروں میں راحت اندوری کی یہ پرفارمنس توپ کی طرح چلی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس طرزِ راحت نے شہرت اور مقبولیت کی کئی چوٹیاں سَر کرلیں۔ جگر مرادآبادی اپنے زمانے میں اپنے ترنم کے سبب بھی ممتاز تھے۔ وہ جس شہر میں جاتے وہاں مہینوں ان کا ترنم گونجتا رہتا تھا۔ وہاں کے شعرا ان کی نقل کرنا بھی سعادت سمجھتے تھے۔

اگر آپ یوٹیوب یا بی بی سی وغیرہ پر جگر مرادآبادی کا ریکارڈ سنیں اور پھر مجروح سلطان پوری کو سنیں تو آپ کو صاف محسوس ہوگا کہ مجروح کے ترنم میں جگر صاحب کے ترنم کی بازگشت ہے۔

اسی طرح یاد آتا ہے کہ جگر کے ایک شاگرد عارف عباسی بلیاوی تھے جو اپنے زمانے میں معروف و مشہور بھی ہوئے۔ وہ جگر کے بیشتر اوصاف کو اپنی زندگی میں ڈھال چکے تھے مگر جگر کی طرح سیاہ صورت نہیں تھے، تو ایک مشاعرے کا واقعہ ہے کہ اسٹیج پر شعرا جمع ہورہے تھے، فنا نظامی کانپوری جو اپنے ظریفانہ جملوں کے سبب بھی ایک امتیاز رکھتے تھے جبکہ وہ بھی جگر ہی کے پروردہ تھے۔ فنا نظامی کانپوری بہت ہی سنجیدگی سے عارف عباسی سے کہنے لگے کہ ’بھائی عارف! آپ جگر صاحب کی طرح شعر بھی کہہ لیتے ہیں اور جگر صاحب ہی کی طرح آپ کا ترنم بھی ہے، لباس میں بھی جگر صاحب کی اتباع میں آپ کامیاب ہیں مگر ایک کمی ہے آپ میں‘۔

عارف عباسی نے بہت ہی معصومیت سے پوچھا وہ کیا؟

فنا نظامی کا جواب تھا: ’آپ اپنا منہ ہم سے کالا کروا لیجیے‘۔

راحت اندوری بھی جگر صاحب کی طرح رنگ و صورت کے حامل تھے اور اپنے دور میں مقبولیت میں ان سے خاصے آگے تھے۔ البتہ جگر مرادآبادی کی عزت کرنے والوں میں رشید احمد صدیقی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) جیسے شرفا ہر شہر میں تھے۔ اس زمانے میں جگر صاحب کو مشاعروں میں اعزازیہ کے طور پر جو رقم ملتی تھی وہ شاید و باید ہی ہزار روپے تک پہنچتی ہوگی مگر راحت اندوری اس معاملے میں ان سے کہیں آگے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ اپنے آخری برسوں کے مشاعروں میں لاکھوں روپے ماہانہ حاصل کرلیتے تھے اور خاص بات یہ ہے کہ وہ پیشگی معاوضہ طلب کرتے تھے تو دینے والے چوں و چرا نہیں کرتے تھے کیونکہ مشاعرے میں راحت اندوری کی شرکت ہی ان کے پروگرام کی کامیابی کی ضمانت بن جاتی تھی۔

راحت اندوری مشاعرہ سننے والوں کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس کو انہوں نے سلیقے سے برتا بھی اور اس ہنر میں وہ نہایت کامیاب شخص تھے۔ وہ سلگتے ہوئے موضوعات کو ایک سلیقے سے شاعری کا لباس نہ سہی مگر التباس بنانے میں پوری طرح قادر تھے اور سننے والا ان کے بیانیے پر جھومتا نہیں بلکہ داد کو نعرۂ تکبیر جیسا بنا دیتا تھا۔

یہاں کے ایک اخبار میں چھپنے والی ان کی رحلت کی خبر میں لکھا گیا ہے کہ وہ اپنا کلام سنانے میں شائستگی نہیں بلکہ جارحانہ انداز اختیار کرتے تھے جو ان کی شاعری کو دو آتشہ بنادیتا تھا۔

ہندی مسلمانوں کے پس منظر اور ہندوستانی سیاست کے تناظر میں ان کا یہ شعر دیکھیے اور سوچیے کہ جب وہ اپنے ’جارحانہ‘ انداز سے سناتے ہوں گے تو مشاعرے گاہ میں داد کے طوفان کی لہر کتنی دیر تک بلند رہتی ہوگی

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندستان تھوڑی ہے

کئی برس پہلے کی بات ہے کہ ہم بھی اس مشاعرے میں شریک تھے اور جب راحت اندوری نے اپنا یہ شعر پڑھا

ہمارے سَر کی پھٹی ٹوپیوں پَہ طنز نہ کر

ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں

تو تمام مشاعرے گاہ میں صرف واہ، واہ کا شور دیر تک بلند رہا اور پھر یہ شعر اس مشاعرے کا حاصل بن گیا تھا۔

ہمارا خیال ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی کسمپرسی اور بے بسی نے بھی راحت کی شاعری کو بڑی کمک پہنچائی۔ بارہا فسادات میں مارے گئے اور بابری مسجد کی شہادت جیسے سانحے سے غمزدہ مسلمانوں کی نفسیات کا راحت نے گہرا مطالعہ کیا اور اس درد و غم سے انہوں نے شاعری کی جو بُنت کی، ظاہر ہے کہ وہ سننے والوں کے دل کی آواز بن گئی اور راحت کی یہ آواز پورے ملک میں جنگل کی آگ کی مانند پھیلنی تھی سو خوب خوب پھیلی۔

راحت بھی ایک آدمی تھے اور بحیثیت ابنِ آدم کس میں کمزوری نہیں ہوتی مگر راحت نے اس کمزوری سے ایک طاقت و قوت کشید کی اور عوام میں اسے اپنے انداز و پیشکش سے نہ صرف ایک تشخص بنایا بلکہ اردو مشاعروں کو بھی ایک تقویت پہنچائی۔

ایک روایت کے مطابق رفعت اللہ قریشی اور بتول بی کے فرزندِ ارجمند راحت (اندوری) اللہ قریشی نے پہلا مشاعرہ مدھیہ پردیش کے ایک ٹاؤن دیواس میں پڑھا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس مشاعرے میں راحت کے نام کی سفارش ان کی ماں بتول بی نے کی تھی۔ ماں کی سفارش کیا رنگ لائی یہ ساری دنیا نے نہ صرف دیکھا بلکہ گواہ بن گئی۔

انڈیا میں جہاں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے وہیں راج بھاشا ہندی کا بھی بڑا حلقہ ہے۔ کئی ہندی ٹی وی چینل ہیں جن کے پروگرام دیکھنے والوں کی کثیر تعداد ہے۔ ہمارے خیال سے راحت اندوری کی مقبولیت کے اضافے میں ان چینل والوں کا بھی ایک کردار ہے جس سے راحت کی عوامی شہرت کو بہت تقویت ملی۔

ہندی کے ان ٹی وی پروگراموں میں بھی وہ خوب پسند کیے گئے۔ اردو میں ایک محاورہ ہے ’گھر کی مرغی دال برابر‘ مگر راحت اندوری کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ ہم اپنی آنکھوں دیکھی بیان کریں گے کہ اندور کے کسی بڑے اسٹیڈیم میں ایک مشاعرہ تھا جس کے کنوینر منور رانا تھے اور یہ مشاعرہ ہندی اردو دونوں زبانوں کے شعرا پر مشتمل تھا۔ جس میں اگر ندا فاضلی، بیکل اتساہی جیسے ممتاز شعرا تھے تو وہیں نیرج جیسے مشہور کوی بھی شریک تھے۔

مشاعرہ بس شروع ہوا چاہتا تھا کہ اسٹیج پر راحت اندوری کی آمد آمد ہوئی اور ہم نے دیکھا کہ اسٹیڈیم میں موجود ہزاروں شائقین نے اپنے شہر کے اس سپوت کا جس طرح خیر مقدم کیا وہ بھی ایک جلوہ تھا۔

حال ہی میں ہم نے ایک ویڈیو کلپ دیکھی ہے جو اندور ہی میں ’جشنِ راحت‘ کی جھلکیوں پر مشتمل ہے۔ وہ جشن بھی غالباً اسی اسٹیڈیم میں برپا ہوا ہوگا کہ تینوں طرف بالکنیوں اور فرش پر راحت کے چاہنے والوں کا ایک ازدحام ہے۔ اسی جشن میں 8، 10 منٹ کی ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی جس میں راحت کے سوانحی گوشوں پر فوکس کیا گیا ہے۔

راحت اللہ قریشی نے باقاعدہ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور درس گاہ میں سبق بھی پڑھایا مگر راحت اندوری نے مشاعرے کے اسٹیج سے جو درس دیا، اسے آسانی سے بھلایا نہیں جاسکے گا۔ مشاعروں میں راحت کی جو کارکردگی ہمارے سامنے ہے اس کی روشنی میں وہ ’پاپولر لٹریچر‘ کی اصطلاح پر پورے اترتے ہیں۔

اردو کے رسالوں نے راحت اندوری کے فن و شخصیت پر خصوصی شمارے بھی شائع کیے اور اندور کے علاوہ دیگر شہروں میں ان کا جشن ہی نہیں منایا گیا بلکہ ان کو ایوارڈز بھی دیے گئے۔

راحت اندوری نے ہندی فلموں میں بھی اپنے قلم کا جادو جگایا۔ ان کے فلمی نغمے بھی مقبول ہوئے مگر مشاعروں میں انہیں جو مقبولیت ملی وہ ایک ریکارڈ بن گئی۔

ان کی شعر گوئی اور ان کے اندازِ پیش کش نے عوام ہی کو نہیں شعرا کو بھی متاثر کیا اور کئی شاعر ایسے ہیں جو راحت اندوری کے اندازِ پیشکش کو اپنا کر مشاعروں میں راحتی جوہر دکھا رہے ہیں اور لوگوں کے ذوق کی تسکین کر رہے ہیں اور اس طرح اپنے کاروبارِ سخن میں کامیاب ہیں۔

یہ برانڈز کا دور ہے اور راحت مشاعرے بازار کا ایک بڑا برانڈ بن گئے تھے۔ ان کے برانڈ نے دوسرے شعرا پر بھی اپنا اثر ڈالا۔ یہاں مشاعروں میں دیگر شعرا جو تحت اللفظ کلام پڑھتے ہیں ان پر ’راحت برانڈ‘ کا واضح اثر محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں راحت ایک مقبول شاعر ہی نہیں بلکہ اپنے دور کے برانڈڈ شاعر تھے۔ فی زمانہ اپنے آپ میں یہ ایک غیر معمولی امر ہے۔

راحت اندوری یکم جنوری 1950ء میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اردو مشاعرے جیسے موضوع پر پی ایچ ڈی بھی کی اور کم لوگ جانتے ہیں کہ راحت اندوری ایک اچھے مصور بھی رہے ہیں، مگر برش کی مصوری سے زیادہ لفظوں سے انہوں نے جو تصاویر بنائیں اور مشاعروں کے اسٹیج پر لوگوں کو دکھائیں وہ کہیں زیادہ پُرکشش ثابت ہوئیں۔

انہوں نے نہ صرف ہندوستان بھر میں مشاعرے پڑھے بلکہ دنیا بھر میں وہ عزت و تکریم سے مدعو کیے گئے۔ اپنے شعر اور اندازِ پیشکش سے لوگوں کو بھی خوب متاثر کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے چھپے جن میں ’دھوپ دھوپ‘، میرے بعد، پانچواں درویش، ناراض اور کلام قابلِ ذکر ہیں۔

آخر الذکر شعری مجموعے پر دلیپ کمار نے اپنے تحسینی مکالمے لکھ کر راحت اندوری کو داد دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کلام اور مشاعرے کے اسٹیج پر پرفارمنس کے سبب لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں زبردست طریقے سے کامیاب تھے۔ شعر خوانی کا ان کا انداز بہت ہی جاندار تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی مقبولیت میں ان کی ’پیش کش‘ اثر انداز رہی یا کلام، مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ اس دور کے اردو مشاعروں کے مقبول ترین شاعر کے طور پر تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ اس وقت ان کا یہ شعر بھی یاد آتا ہے

مَیں نور بن کے زمانے میں پھیل جاؤں گا

تم آفتاب میں کیڑے نکالتے رہنا

ڈاکٹر راحت اندوری ہزارہا افراد کے مجمع کو اپنے لفظوں سے، اپنی آواز کے زیر وبم سے ہپناٹائیز کرنے کا ہنر رکھتے تھے مگر بڑے بڑے بادشاہوں اور علم و ہنر میں یکتا لوگوں کا آخری سفر عجب شکل میں آسمان نے دیکھا، لیکن جب 11 اگست کی شام کو راحت کے جسدِ خاکی کو سپرد لحد کیا جارہا تھا تو کورونا کے 'پروٹوکول‘ نے ساری شہرت اور تمام مقبولیت کو کنارے کردیا۔

جس شہر میں ہزارہا ہزار آدمی ان کے خیر مقدم میں کھڑے ہوجاتے تھے اسی شہر اندور میں 10، 12 افراد نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور پھر ان کے تابوت کو اس سے بھی کم افراد کی موجودگی میں سپردِخاک کردیا گیا۔

تبصرے (3) بند ہیں

Najma shaheen Aug 18, 2020 12:46pm
Good
EmraanTahir Randhawa Aug 11, 2021 02:22pm
یہ تفصیلا بیانکردہ مضمون تھا جس میں جناب راحت اندوری کے آغاز سے آخری آرام گاہ سمیت مختلف شعرا سے انکی شخصیت کے ساتھ تھوڑا بہت موازنہ بھی کیا گیا جو کہ اچھی بات ہے جس شہر میں دس سے بارہ ہزار افراد راحت اندوری صاحب کے لیے کھچے چلے آتے تھے جنازہ میں دس سے بارہ افراد لکھا گیاہے اسکی کیا وجہ تھی؟ کیا یہ کرونا کا زمانہ تھا جو اتنی کم تعداد میں لوگ جنازے میں شامل ہوئے کیا اسکی ایک وجہ انکا مسلمان ہونا بھی ہے؟؟ جواب کے لیے میل ایڈریس موجود ہے انتظار رہے گا شکریہ
عثمان ارشد ملک Aug 11, 2021 04:09pm
بہت ہی دلچسپ اور پر اثر تحریر ہے ۔پڑھ کر بہت لطف آیا ۔ آپ نے بات کئی پہلوؤں سے کی ہے اور اچھی معلومات دی ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ آپ کے ذوق پر بھی داد دینی پڑے گی ۔