سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست

اپ ڈیٹ 19 اگست 2020
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی گئی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی گئی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ 17 جنوری 2019 کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کے سینئر عہدیداران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے جہاں مذکورہ فیصلے میں سندھ حکومت کو کراچی کے تین ہسپتالوں کی منتقلی غیر قانونی قرار دی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ کراچی کے تین بڑے ہسپتالوں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج (جے پی ایم سی)، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو واسکولر ڈیزیزز (این آئی سی وی ڈی) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چلڈرن ہیلتھ (این آئی سی ایچ) کی 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صحت کے شعبے میں تبدیلی تحت مرکز سے صوبے میں منتقلی غیر آئینی تھی۔

مزید پڑھیں: وفاق نے کراچی کے ہسپتالوں کا کنٹرول لینے کیلئے ضروری لوازمات پورے نہیں کیے، مرتضیٰ وہاب

درخواست گزار ڈاکٹر عائشہ افتخار جے پی ایم سی میں 29 سال کی خدمات انجام دینے والی پروفیسر ہیں اور انہوں نے درخواست میں وزیر اعظم عمران خان، وفاقی کابینہ کے سیکریٹری معروف افضل، نیشنل ہیلتھ سروسز کے سیکریٹری فیصل سلطان، سیکریٹری خزانہ محمد خاشی الرحمٰن کو نامزد کیا ہے، سیکریٹری ارشد فاروق فہیم، اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان سردار عظمت شفیع اور سندھ کے چیف سیکریٹری سید ممتاز علی شاہ کو فریق بنایا ہے۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ وہ گریڈ 19 کی پروفیسر ہے لیکن وہ نومبر 2016 سے بی پی ایس 20 میں بغیر کسی مراعات اور استحقاق کے کام کررہی ہیں، انہوں نے کہا کہ ان اداروں کی وفاقی حکومت سے سندھ حکومت کو منتقلی کے باعث 2011 سے انہیں سرکاری طور پر بی پی ایس 20 میں ترقی نہیں دی گئی، انہوں نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے سے متاثر ہورہی ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ نے دعویٰ کیا کہ اب وہ بی پی ایس 21 میں ترقی پانے کی اہل ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مطلوبہ تجربے کی مقررہ مدت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ سب سے سینئر اور اہل شخصیت بھی ہیں، انہوں نے استدلال کیا کہ متعلقہ محکمے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے پابند ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ فیصلے کا اطلاق کسی غلط فہمی کی وجہ سے نہیں ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 21-2020: حکومت نے کراچی کے 3 ہسپتالوں کیلئے 14 ارب روپے مختص کردیے

درخواست گزار نے افسوس کا اظہار کیا کہ جے پی ایم سی میں تقریبا 1100 ملازمین، این آئی سی وی ڈی میں 254 اور این آئی سی ایچ میں 600 ملازمین کو پریشانی کا سامنا ہے یا الاؤنس دینے سے انکار کردیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور اس سے متعلقہ ڈویژن اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہوں نے 90 دن میں اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا اور اب عدالت عظمی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس پر عملدرآمد کے لیے مدت میں توسیع کرے۔

درخواست گزار نے افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ہچکچاہٹ کی وجہ سے ان تینوں اداروں کے ملازمین کی جون 2019 کی تنخواہیں اے جی پی آر سے اکاؤنٹینٹ جنرل سندھ کو جاری نہیں کی جاسکیں۔

درخواست میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت کے تحت قائم کمیٹی نے صوبے کے ساتھ انتظامی معاہدے پر مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے کیونکہ ان کی نظر میں سپریم کورٹ کے حلاف وفاقی حکومت کے تحت ہیلتھ یونٹس پر کنٹرول برقرار رکھنے کی تجویز نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: شیخ زاید ہسپتال کا انتظام وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کا حکم

ان اداروں کو وفاقی حکومت کے پاس رکھنے میں مالی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی خلاف ورزی سے ان اداروں کے کام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، انہوں نے یاد دہانی کرائی کے مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں کراچی پیکج کے لیے 45.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں، کوئٹہ پیکج کے لیے 10 ارب، یوتھ لون اسکیم کے لیے 100 ارب روپے اور دیگر منصوبوں کے لیے اسی طرح کے فنڈز مختص کیے گئے تھے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ محکمہ خزانہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کے بجائے دوسرے منصوبوں کو ترجیح دے رہی ہے۔

اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ جے پی ایم سی، این آئی سی وی ڈی ، این آئی سی ایچ وغیرہ وفاقی قانون سازی کی فہرست کے انٹری نمبر 11 کے دائرے میں آتے ہیں اور اسے صوبہ سندھ منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔


یہ خبر 19 اگست 2020 بروز بدھ ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں