کووڈ 19، قانونی چیلنجز کے باعث سندھ میں بلدیاتی انتخابات مؤخر ہونے کا امکان

اپ ڈیٹ 23 اگست 2020
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مختلف چیلنجز ہیں—فائل فوٹو: ای سی پی فیس بک
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مختلف چیلنجز ہیں—فائل فوٹو: ای سی پی فیس بک

کراچی: سندھ میں موجودہ بلدیاتی حکومت کی 4 سالہ مدت ختم ہونے میں جہاں ایک ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے وہیں عالمی وبا کووڈ 19 سمیت حلقہ بندیوں کے لیے قانونی چیلنجز کے باعث وقت پر انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔

یہاں یہ خیال رہے کہ صوبائی کابینہ کی جانب سے شہر میں کیماڑی کو نیا ضلع بنانے کے فیصلے کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کی لازمی شرط قانونی چیلنج کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس وقت سندھ واحد صوبہ ہے جہاں منتخب بلدیاتی حکومت ہے جو 30 اگست 2016 کو اس وقت قائم ہوئی تھی جب صوبے بھر میں 4 میئرز اور میونسپل باڈیز کے درجنوں چیئرمینز نے حلف اٹھایا تھا۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت بالترتیب 27 جنوری 2019 اور 28 اگست 2019 کو اختتام پذیر ہوئی تھی جبکہ پنجاب میں بلدیاتی حکومتیں 4 مئی 2019 کو تحلیل ہوئی تھیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کی صوبے میں بلدیاتی انتخابات موخر کرنے کی درخواست مسترد

تاہم تینوں صوبوں جس میں سے 2 میں براہ راست پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے وہ بلدیاتی انتخابات کروا کر ایک منتخب نظام میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتیں حالانکہ ملک کا انتخابی قانون انہیں پابند کرتا ہے کہ منتخب بلدیاتی حکومت کی مدت کے خاتمے کے 120 روز کے اندر انتخابات کروائے جائیں۔

وہیں پاکستان پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کے ساتھ بے جھجک ہوئی گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں جماعتیں وقت پر یا فوری طور پر بلدیاتی انتخابات نہیں چاہتیں، تاہم وہ اپنے ووٹرز کو یہ پیغام بھی بھیجنا نہیں چاہتے کہ وہ تاخیر چاہتے ہیں۔

کووڈ 19 وبا نے صوبائی حکومت کو ایک موقع فراہم کیا ہے وہ بغیر کسی الزام لیے اس میں تاخیر کا مطالبہ کرے۔

اس کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان نے ایک قانونی کارڈ کھیلا ہے جو بالآخر فوری انتخابات میں تاخیر میں مدد دے گا۔

10 اگست کو کراچی کے میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما وسیم اختر نے رپورٹرز کو کہا تھا کہ ان کی مدت 28 اگست کو مکمل ہورہی ہے اور جلد بلدیاتی انتخابات ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔

اس کے 4 روز بعد چیئرمین پیپلزپارٹی نے نئے انتخابات کا اشارہ دیتے ہوئے باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ سندھ میں ان کی جماعت، منتخب بلدیاتی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد کراچی کے انتظامی امور کو سنبھالے گی۔

خیال رہے کہ سندھ میں 12 سال سے زائد عرصے سے حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے 2010 میں اس وقت کی ضلعی حکومت کو تحلیل کرنے کے بعد صوبے بھر میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں 5 سال لگائے تھے جبکہ یہ انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر سال 2015 میں کروائے گئے تھے۔

یہاں تک کہ آج بھی حکومت سندھ بیوروکریٹس کی مدد سے معاملات چلارہی ہے اور بلدیاتی حکومتوں خاص طور پر کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص کی بلدیاتی حکومتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو اہم میونسپل کام تفویض کیے گئے ہیں۔

سندھ میں حزب اختلاف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان ان تینوں شہروں میں اقتدار میں ہے۔

مزید برآں موجودہ بلدیاتی حکومت کی مدت پوری ہونے کے ساتھ ہی صوبائی حکومت صوبے کی میٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشنز اور میونسپل اور ٹاؤن کمیٹیز کے ایڈمنسٹریٹرز کے طور پر کچھ بیوروکریٹس کو تعینات کرنے کے لیے تیار ہے۔

الیکشن ایکٹ، ایس ایل جی اے میں وقت کی حد پر تضاد

الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 219 کہتی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) قابل اطلاق مقامی حکومت کے قانون اور اس کے تحت بنائے گئے ان رولز کے تحت مقامی حکومتوں کے لیے انتخابات کروائے گا جو صوبے، کنٹونمنٹ، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری یا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے لیے بھی لاگو ہوسکتے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ کمیشن صوبے، کنٹونمنٹ، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری یا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے 120 روز کے اندر بلدیاتی حکومتوں کے لیے انتخابات کروائے گا۔

تاہم سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس ایل جی اے) 2013 جو صوبائی اسمبلی سے اکثریت رائے سے منظور ہوا تھا وہ بلدیاتی حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ سے متعلق خاموش ہے۔

ایس ایل جی اے کا باب پنجم (چیمٹر 5) بلدیاتی انتخابات سے متعلق ہے جبکہ سیکشن 34 (1) میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کروائے گا جبکہ اسی سیکشن کا ذیلی سیکشن (2) صوبائی حکومت کو صوبے میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

قانونی چیلنجز

دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان نے تکنیکی بنیادوں پر بلدیاتی حلقوں کی حد بندیوں کو روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہوا ہے۔

واضح رہے کہ یہ بلدیاتی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کا لازمی قدم ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 17 (1) کے تحت ای سی پی قومی اسمبلی، ہر صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کے لیے علاقائی انتخابی حلقوں کی حدبندیوں کے لیے ذمہ دار ہے جو آئین، قانون اور قوائد اور قابل عمل بلدیاتی حکومت کے قانون کی دفعات کے مطابق ہو۔

یہ بھی پڑھیں: 'آئی جی سندھ کا تبادلہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی تیاری ہے'

قانون کے سیکشن 17 (2) کے مطابق کمیشن ہر مردم شماری کے سرکاری سطح پر سامنے آنے کے بعد حلقہ بندیوں کو ختم کردے گا۔

ای سی پی نے رواں سال اپریل میں ٹاؤن کمیٹی اور میونسپل کمیٹی میں یونین کونسلز، یونین کمیٹیز اور وارڈز میں حد بندیوں کا آغاز کیا تھا لیکن ایم کیو ایم پاکستان نے اس عمل کو سندھ ہائیکورٹ میں یہ کہہ کر چیلنج کردیا کہ 2017 میں مردم شماری کا حتمی نتیجہ نوٹیفائی نہیں ہوا لہٰذا اس طرح کا عمل غیرقانونی ہوگا۔

بعد ازاں عدالت عالیہ نے مذکورہ معاملے پر فریقین کو نوٹس جاری کردیے اور اب اس پر 26 اگست کو سماعت ہوگی۔

علاوہ ازیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے سندھ کابینہ کی جانب سے کیماڑی کو شہر کا 7واں ضلع بنانے کے حالیہ فیصلہ کو چیلنج کرنے کا اشارہ بھی دے دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں