ترکی بحیرہ روم اور بحیرہ اسود میں اپنے حقوق کا دفاع کرے گا، طیب اردوان

اپ ڈیٹ 26 اگست 2020
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنی حدود کے تحفظ کا عزم ظاہر کرتے ہوئے یونان کو انتباہ جاری کیا— فائل فوٹو: اے پی
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنی حدود کے تحفظ کا عزم ظاہر کرتے ہوئے یونان کو انتباہ جاری کیا— فائل فوٹو: اے پی

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ ترکی بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ ایجین اور بحیرہ اسود میں جو کچھ بھی اس کا ہے وہ ضرور لے گا اور اپنے حقوق کا دفاع کرے گا۔

ترک خبر رساں ایجنسی 'انادولو' کے مطابق رجب طیب اردوان نے مشرقی ترکی کے شہر موس میں لڑی جانے والی منزکیرٹ کی 949ویں سالگرہ کے موقع پر بدھ کو منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہا کہ ترکی کا کسی بھی دوسرے ملک کی سرزمین، خودمختاری یا مفادات سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن جو کچھ ہمارا ہے، ہم اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں برتیں گے۔

مزید پڑھیں: کرائسٹ چرچ مسجد حملہ: غمزدہ خاندانوں نے دہشت گرد کا ’سفید بالادستی‘ کا نظریہ مسترد کردیا

اردوان نے یونان کے ساتھ سمندری علاقے اور توانائی کے وسائل کے سلسلے میں ترکی کے حقوق کے بارے میں تنازعات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی ہر کسی سے درخواست کرتا ہے کہ وہ وہ ایسے غلط قدم اٹھانے سے گریز کریں جو تباہی کا سبب بنیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی بازنطینی ورثہ کے نااہل افراد یورپیو کی حمایت پر اعتماد کرتے ہوئے ناانصافی اور قزاقی حرکتوں کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے یہ تبصرہ ترکی کے بحیرہ اسود میں قدرتی گیس کی بڑی دریافت اور یونان کے ساتھ مشرقی بحیرہ روم میں جاری تنازع کے تناظر میں کیا۔

اردوان نے جمعہ کے روز اعلان کیا تھا کہ ترکی نے بحیرہ اسود کے ساحل سے 20 جولائی سے کھدائی کرنے والے ان کے بحری جہاز فاتح نے بعد قدرتی گیس کے 320 بلین مکعب ذخائر تلاش کرلیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حماس اور حزب اللہ کے ٹھکانوں پر اسرائیل کے فضائی حملے

اردوان نے جس تقریب سے خطاب کیا دراصل وہ 26 اگست 1071 کو مشرقی ترکی میں سلطان الپ ارسلان کی فتح کی یاد میں منعقد کی گئی اور اس فتح کے بعد بازنطینی سلطنت کا زوال تیز تر ہوگیا تھا اور مزید ترک آبادیاں بن گئی تھیں جس سے خلاف عثمانیہ اور جدید دور کے ترکی کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

یونانی 'لاقانونیت' پر ترکی کا اعتراض

جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس سے منگل کو ہونے والی ملاقات کے دوران بحیرہ روم کے تنازع پر ثالثی کی درخواست کی گئی اور ترک وزیر خارجہ میلوت کاوسلو نے مذاکراتی عمل میں شمولیت پر آمادگی کا اظہار کیا، لیکن انہوں نے یونانی "لاقانونیت" اور خطے میں کشیدگی بڑھانے پر بھی اعتراض کیا۔

ترکی نے یونان کی جانب سے توانائی کی کھوج سے روکنے کے معاملے پر بھی احتجاج کرتے ہوئے اس سلسلے میں یورپی یونین کی مدد طلب کی۔

ماس کے دورے سے پہلے ترکی اور بعد میں یونان نے بحیرہ روم میں فوجی مشقوں سے متعلق متضاد انتباہات بھیجے تھے۔

مزید پڑھیں: ساڑھے 4 ارب روپے کی پینٹنگ خراب کرنے والے شخص کو جیل بھیج دیا گیا

ترک ساحلوں کے قریب چھوٹے جزیروں کو خصوصی معاشی زون قررا دینے کی یونان کی کوششوں کی ترکی مستقل مخالفت کرتا رہا ہے کیونکہ بحیرہ روم میں سب سے طویل ساحل کے حامل ملک ترکی کا ماننا ہے کہ یہ ان کے مفادات کی نفی کرتے ہیں۔

ترکی نے یہ بھی کہا ہے کہ قبرص کے قریب توانائی کے وسائل کو ترک پیٹرولیم کو لائسنس دینے والے ترک جمہوریہ شمالی قبرص (ٹی آر این سی) اور جنوبی قبرص کی یونانی قبرصی انتظامیہ کے درمیان منصفانہ طور پر مشترکہ طور پر تقسیم ہونا چاہیے۔

اردوان نے کہا ہے کہ تنازع کا واحد حل بات چیت اور گفت و شنید میں پوشیدہ ہے اور یونان سے مطالبہ کیا کہ وہ ترکی کے حقوق کا احترام کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں