ڈاکٹر ماہا کو دھمکیاں دینے، تشدد کرنے والے ڈاکٹر، دیگر ملزمان کےخلاف مقدمہ

پولیس اس بات کو یقینی بنائے گی کی کیس کی تحقیقات میرٹ پر کی جائے، ڈی آئی جی جنوبی — فائل فوٹو / اے ایف پی
پولیس اس بات کو یقینی بنائے گی کی کیس کی تحقیقات میرٹ پر کی جائے، ڈی آئی جی جنوبی — فائل فوٹو / اے ایف پی

کراچی پولیس نے خودکشی کرنے والی خاتون ڈاکٹر کے کیس میں ایک ڈاکٹر اور ڈاکٹر ماہا شاہ کے مبینہ دوستوں کے خلاف دھمکیاں دینے اور تشدد سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔

کلفٹن کے نجی ہسپتال کی جواں سالہ ڈاکٹر نے 18 اگست کو ڈیفنس میں واقع اپنے گھر میں خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔

ڈی آئی جی جنوبی زون جاوید اکبر ریاض نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے ان ملزمان کے خلاف ڈاکٹر ماہا شاہ کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اس بات کو یقینی بنائے گی کی کیس کی تحقیقات میرٹ پر کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے پوش علاقوں میں منشیات سپلائی کرنے والے افراد کون ہیں جس کے باعث اس طرح کے بدقسمت واقعات پیش آتے ہیں۔

پولیس نے متوفیہ کے والد سید آصف شاہ کی مدعیت میں ڈاکٹر ماہا کے دوستوں جنید خان، وقاص حسن، ڈاکٹر عرفان اور دیگر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 334، 337 جے، 506 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹر ماہا شدید ڈپریشن کا شکار، اپنی جان لینا چاہتی تھیں، پولیس

ایف آئی آر کے مطابق ڈاکٹر ماہا شاہ کی چار سال قبل جنید خان سے اس کی بہن کے ذریعے دوستی ہوئی۔

جنید خان نے مبینہ طور پر ڈاکٹر ماہا کو کوکین اور دیگر منشیات کی لت میں مبتلا کیا اور بعد ازاں انہیں تشدد اور توہین کا نشانہ بنانا شروع کیا، ملزم نے مبینہ طور پر ان کا جنسی استحصال بھی کیا۔

ڈاکٹر ماہا اپنے دوست سے تنگ آگئی تھیں اور اسی دوران ان کی ملاقات تابش قریشی سے ہوئی جنہوں نے متوفیہ کو شادی کی پیشکش کی، لیکن جب جنید کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ڈاکٹر ماہا کو دھمکانا شروع کردیا اور بدلے کے طور پر انہیں ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا۔

ڈاکٹر ماہا نے تمام صورتحال اپنے دوست ڈاکٹر عرفان قریشی کو بتائی جنہوں نے ان کی صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور متوفیہ کو اپنے گھر لے آئے جہاں انہوں نے ڈاکٹر ماہا کو مبینہ طور پر بھاری مقدار میں کوکین اور دیگر منشیات دیں۔

ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا گیا کہ ڈاکٹر عرفان نے ڈاکٹر ماہا کے ساتھ قابل اعتراض حرکات بھی کیں جس پر متوفیہ غصہ ہو کر ٹیکسی کے ذریعے اپنے گھر پہنچیں اور تمام داستان اپنے اہلخانہ کو بتائی اور کہا کہ انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے جس سے ان کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔

انہوں نے اہلخانہ کو یہ بھی بتایا کہ سنگین نتائج اور معاشرے میں رسوا کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور کہا کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیں گی۔

متوفیہ کے والد نے کہا کہ جنید خان، وقاص حسن، ڈاکٹر عرفان قریشی اور دیگر نے ان کی بیٹی کو ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ مبینہ طور پر ڈاکٹر ماہا کے 'قاتل' ہیں۔

واضح رہے کہ ڈی ایچ اے فیز 4 میں پیش آنے والے خودکشی کے اس واقعے سے متعلق پولیس کا ابتدائی طور پر کہنا تھا کہ 24 سالہ ڈاکٹر ماہا علی شاہ نے کچھ گھریلو تنازع پر خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: ڈیفنس میں 'گھریلو تنازع' پر خاتون ڈاکٹر کی 'خودکشی'

تاہم 22 اگست کو ایس ایس پی جنوبی شیراز نذیر نے بتایا کہ ماہا علی شاہ کو پستول فراہم کرنے کے الزام میں 2 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے، نائن ایم ایم پستول سعد صدیقی کی تھی جو مانگنے پر تابش قریشی نے لا کر ماہا کو دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ماہا نجی ہسپتال کی ڈیوٹی سے واپس آئیں تو کافی ڈیپریس تھیں، وہ بہن کے ساتھ کمرے میں لیٹی تھی جبکہ ان کے والد آصف شاہ بھی آکر اسی کمرے میں بستر پر لیٹ گئے۔

ایس ایس پی جنوبی نے کہا کہ ڈاکٹر ماہا بہانے سے باتھ روم میں گئی اور دروازہ بند کرکے شاور چلا دیا، جس کے بعد انہوں نے باتھ روم میں دیوار کے ساتھ بیٹھ کر خود کنپٹی پر نائن ایم ایم پستول سے گولی ماری۔

انہوں نے کہا کہ گولی سر سے پار ہو کر دیوار میں پیوست ہوگئی جس کے پولیس نے شواہد حاصل کر لیے، گولی کی آواز سن کر والد بھاگے، شور مچایا اور بیٹی کے ساتھ مل کر باتھ روم کا دروازہ توڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ باتھ روم میں چلتے شاور کے نیچے ماہا خون میں لت پت تھیں اور سر کموڈ پر تھا۔

شیراز نذیر نے کہا کہ والد نے مددگار 15 کو فون کیا اور قریبی عزیز ڈاکٹر زہرہ کو فون کرکے بلوایا، ڈاکٹر ماہا کو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ چند گھنٹوں کے علاج کے بعد چل بسی۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ماہا علی شاہ شدید ڈپریشن کا شکار تھیں اور خود کو مارنے کی باتیں کرتی تھیں، جبکہ خودکشی کے متعلقہ کرداروں کے خلاف تفتیش جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں