جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیر اعظم ودیگر کی انکم ٹیکس تفصیلات مانگ لیں

اپ ڈیٹ 31 اگست 2020
سرینا عیسیٰ کے مطابق ان لوگوں کو خفیہ اور قانونی طور پر محفوظ میری انکم ٹیکس اور بینک ریکارڈز تک غیر قانونی رسائی دی گئی تھی ۔ فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
سرینا عیسیٰ کے مطابق ان لوگوں کو خفیہ اور قانونی طور پر محفوظ میری انکم ٹیکس اور بینک ریکارڈز تک غیر قانونی رسائی دی گئی تھی ۔ فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے الزام لگایا ہے کہ ان کے خفیہ اور قانونی طور پر محفوظ انکم ٹیکس اور بینک ریکارڈز تک غیر قانونی طور پر رسائی حاصل کی گئی تھی لہذا وہ ان لوگوں کے بارے میں بھی ایسی ہی معلومات چاہتی ہیں جن کو یہ تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے بیان میں سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں معلومات کی خواہاں ہیں جن تک ان کی خفیہ معلومات اور دستاویزات تک رسائی دی گئی تھی، جن میں وزیر اعظم عمران خان، وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، اثاثہ ریکوری یونٹ کے چیئرمین مرزا شہزاد اکبر، ڈاکٹر محمد اشفاق احمد اور شکایت کنندہ عبدالوحید ڈوگر شامل ہیں۔

انہوں نے بیان میں الزام لگایا کہ 'انہیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ عوامی عہدے پر فائز رہے ہیں یا عہدہ سنبھال رکھا ہے جبکہ ان میں سے ایک، جو سرکاری ملازم ہے، نے شکایت کی ہے کہ میں اور میرے اہلخانہ ٹیکس کی تعمیل نہیں کرتے'۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر میں دوسرے نوٹس کا جواب جمع کرادیا

ان کا یہ بیان انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) 2001 کی دفعہ 122 (9) اور سیکشن 111 (1) (بی) کے تحت 21 اگست کو کمشنر (آئی آر) ایف بی آر کے جاری کردہ نوٹسز کے 28 اگست کو ان کی جانب سے دیے گئے جواب کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ وہ ایک نجی شخص کی حیثیت سے ہیں جنہوں نے کبھی بھی کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھا اور گزشتہ دو سالوں میں انہوں نے ٹیکس کی مد میں مجموعی طور پر 8 لاکھ 9 ہزار 970 روپے اور 5 لاکھ 76 ہزار 540 روپے ادا کیے ہیں۔

اس سے قبل انہوں نے بورڈ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے جواب میں اپنی حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے دو ایسے ہی بیانات جاری کیے تھے۔

اپنے جواب میں انہوں نے ایف بی آر سے کہا تھا کہ وہ انکم ٹیکس گوشوارے پیش کرے جس پر اتھارٹی انحصار کررہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ بورڈ چاہتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی تشکیل نو کرے اور کراچی امریکن اسکول میں 38 سال قبل جب سے کام کرنا شروع کیا تھا تب سے کمائے ہوئے ہر ایک پیسے کا حساب دے۔

آئی ٹی او کے سیکشن 174 (3) پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا کہ اس آرڈیننس میں ٹیکس سال کے اختتام کے بعد 6 سال سے زیادہ عرصے تک کسی فرد کا کوئی ریکارڈ برقرار رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہراساں کیے جانے کے ساتھ میرے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا جاری ہے، اہلیہ جسٹس عیسیٰ

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ایف بی آر کو معلومات فراہم کرنا ان کی کوئی قانونی ذمہ داری نہیں ہے لیکن پھر بھی انہوں نے رضاکارانہ طور پر یہ کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے دعوی کیا کہ وہ اتنا نہیں کمائی یا بچت کرسکی ہوں گی کہ لندن میں تین جائیدادوں کی خریداری کا جواز پیش کرسکیں جن میں سے ایک 2004 میں 2 لاکھ 36ہزار یورو اور دو 2013 میں بالترتیب 2 لاکھ 45 یورو اور 0 2 لاکھ 70 ہزار یورو میں خریدی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے واضح طور پر آئی ٹی او کے سیکشن 111 پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کی زراعت کی آمدنی کو غیر واضح آمدنی کے طور پر بتایا اور اسے نظر انداز کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس تقریبا 278 ایکڑ زرعی اراضی ہے جو ان کے والد مرحوم کے زیر انتظام چل رہی تھی جن کا 25 جون 2020 کو انتقال ہوا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنی زرعی اراضی سے خاطرخواہ آمدنی حاصل کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں سے حکومت کی طرف سے جاری کردہ بچت سرٹیفکیٹ میں کچھ رقم خرچ کرتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں