اسرائیلی، امریکی وفد کی معاہدے کو حتمی شکل دینے کیلئے متحدہ عرب امارات آمد

اپ ڈیٹ 31 اگست 2020
طیارے میں زمین سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا سراغ لگانے اور اسے غیر مؤثر کرنے کا نظام بھی موجود ہے — فوٹو:رائٹرز
طیارے میں زمین سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا سراغ لگانے اور اسے غیر مؤثر کرنے کا نظام بھی موجود ہے — فوٹو:رائٹرز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے قریبی ساتھی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے امارات پہنچ گئے۔

امریکی اور اسرائیلی وفد نے مذاکرات کے باقاعدہ آغاز سے قبل تل ابیب سے کمرشل پرواز سے سعودی حدود سے ہوتے ہوئے براہ راست متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی پہنچ کر ایوی ایشن کی تاریخ میں نیا باب رقم کردیا۔

فلائٹ ایل آل 737 سعودی عرب کے اوپر سے پرواز کرتی ہوئی امارات پہنچی، جس کے لیے اسرائیل نے سعودی عرب سے درخواست کی تھی کہ ان کی فضائی حدود سے جہاز گزرنے کی اجازت دی جائے جس کے ساتھ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اسرائیلی کمرشل طیارے نے سعودی فضائی حدود کا استعمال کیا۔

تل ابیب سے ابو ظہبی کے لیے روانہ ہونے والا اسرائیلی ایئرلائنز ایل آل کا طیارہ زمین سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا سراغ لگانے اور اسے مؤثر کرنے کے نظام سے لیس ہے۔

مزید پڑھیں: 'مزید عرب رہنماؤں' کے ساتھ تعلقات پر خفیہ بات چیت جاری ہے، اسرائیلی وزیر اعظم

اس طیارے میں ایلبٹ سسٹمز کی جانب سے طیاروں کی جانب زمین سے فضا میں مارے جانے والے میزائل کے انفراریڈ خطرات کا سراغ لگانے اور جام کرنے کے لیے تیار کردہ ڈائریکٹڈ آئی آر کاؤنٹرمیژرز (ڈی آئی آر سی ایم) دفاعی نظام نصب کیا گیا ہے۔

اس نظام کو پورٹ ایبل دفاعی نظام بھی کہا جاتا ہے۔

کمرشل طیاروں کے لیے دفاعی نظام تیار کرنے کا عمل 2002 میں کینیا کے علاقے ممباسا میں اسرائیلی مسافر بردار طیارے کو میزائل کا نشانہ بنانے کی کوشش کے بعد عمل میں آیا تھا۔

تاہم اس وقت طیارہ میزائل حملے سے بال بال بچ گیا تھا۔

قبل ازیں اسرائیل کے اعلیٰ حکام اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلیٰ مشیر، اسرائیل اور متحدہ امارات کے درمیان معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے اس طیارے میں یو اے ای روانہ ہوئے تھے۔

یروشلم پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ابوظہبی میں بات چیت سے پہلے ہی مندوبین اسرائیلی کمرشل پرواز کو تل ابیب سے براہ راست سعودی عرب کی فضائی حدود کو استعمال کرتے ہوئے ابو ظہبی پہنچ کر ایوی ایشن کی تاریخ بھی رقم کریں گے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'امن کی شکل ایسی ہوتی ہے'۔

13 اگست کو اعلان کیا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا معاہدہ کسی عرب ملک اور اسرائیل کے درمیان 20 سال سے زیادہ عرصے میں ہونے والی پہلی ایسی کوئی پیش رفت ہے۔

متحدہ عرب امارات کے اس اقدام سے فلسطینیوں کو شدید تشویش ہے کہ عرب ممالک کی فلسطین کی اپنی ریاست کا مطالبہ اور مقبوضہ اراضی سے اسرائیل کے انخلا کا مطالبہ پس پردہ چلا جائے گا۔

پائلٹ نے اعلان کیا تھا کہ پرواز 3 گھنٹے 20 منٹ کی ہوگی، طیارے پر لفظ 'امن' کاک پٹ کی کھڑکی کے اوپر عربی، انگریزی اور عبرانی زبان میں لکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 'تاریخی امن معاہدہ'

طیارے میں سوار ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر اور داماد جیریڈ کشنر اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن امریکی وفد کے سربراہ ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی ٹیم کی قیادت او برائن کے ہم منصب میر بین شبات کر رہے ہیں، دونوں جانب کے عہدیداران تجارت اور سیاحت جیسے شعبوں میں دوطرفہ تعاون تلاش کریں گے۔

جیرڈ کشنر نے طیارے میں سوار ہونے سے قبل ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میں نے گزشتہ روز مغربی دیوار (یہودیوں کی مقدس عبادت کا مقام) پر دعا کی ہے کہ مسلمان اور عرب، جو پوری دنیا میں اس پرواز کو دیکھ رہے ہوں گے، وہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھیں گے'۔

تبصرے (0) بند ہیں