اسلام آباد:قطر نے اپنی لیبر قوانین میں بڑی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں جس کے بعد وہ خطے میں پہلا ملک بن گیا جہاں تارکین وطن مزدوروں کے لیے ملازمتوں میں تبدیلی کے لیے اپنے آجروں (کمپنی یا مالکان) کی اجات حاصل کرنا لازمی نہیں ہوگی۔

لیبر قوانین میں تبدیلی کے بعد قطر میں ملازمین بلا امتیاز کم سے کم اجرت کے طریقہ کار کو اختیار کرسکتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: قطر کے متنازع ایگزٹ ویزا نظام میں اصلاحات منظور

قطر کے نئے لیبر قانون میں سال کے اوائل میں ایکزٹ پرمٹ کی شرط اور کفالہ نظام کو بھی ختم کردیا گیا۔

30 اگست کو اعلان کردہ نئے قانون کے تحت تارکین وطن مزدور اپنے معاہدے کے خاتمے سے پہلے نوکری تبدیل کر سکتے ہیں جس کے لیے اب انہیں اپنے آجروں سے این او سی (ناقابل اعتراض اجازت نامہ) حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ایک ہی وقت میں منظور کردہ قانون سازی کے مطابق کم سے کم ایک ہزار قطری ریال اجرت ہوگی جو سرکاری گزٹ میں قانون کی اشاعت کے 6 ماہ بعد نافذ ہوجائے گی۔

قوانین کے مطابق کم سے کم اجرت کا اطلاق تمام کارکنوں، تمام قومیتوں اور گھریلو سمیت تمام شعبوں میں ہوگا۔

بنیادی کم سے کم اجرت کے علاوہ آجروں کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ مزدوروں کو مناسب رہائش اور کھانا فراہم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: قطر: متنازع ایگزٹ ویزا نظام کے خاتمے کا امکان

قطر میں نئے لیبر قوانین کے مطابق اگر آجر اپنے ملازمین کو بہتر خوراک اور رہائش فراہم نہیں کرتا تو وہ ملازمین کو کم از کم 300 سے 500 قطری ریال الاؤنس ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

لیبر قوانین میں تبدیلی اس تناظر میں اہم تصور کی جارہی ہیں کہ قطر اپنے 'قومی وژن 2030' کے لیے زیادہ ہنر مند اور بہتر افرادی قوت کا خواہاں ہے۔

بہترین افرادی قوت کی وجہ سے قطر میں کووڈ 19 سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال کو بھی سنبھالنے میں مدد ملے گی۔

دوسری جانب بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے قطر کی لیبر مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا ہے۔

مزید پڑھیں: زلفی بخاری کا قطر میں لیبر ریفارمز پر اطمینان کا اظہار

آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل گائے رائڈر نے کہا کہ قطر نے اس عہد پر عمل کیا ہے جس سے کارکنوں کو مزید آزادی اور تحفظ ملے گا اور ساتھ ہی مالکان کو مزید انتخاب کا موقع ملے گا۔

قطر کے مزدور اور سماجی امور کے وزیر یوسف محمد عثمان نے کہا کہ ان کا ملک ایک جدید اور فعال مزدور مارکیٹ بنانے کے لیے پرعزم ہے۔


یہ خبر یکم ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں