کے-الیکٹرک کیخلاف اقدامات پر حکم امتناع خارج، نیپرا قانون کے سیکشن 26 پر عملدرآمد کا حکم

اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2020
عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے کے-الیکٹرک کے خلاف اقدامات پر جاری شدہ حکم امتناع خارج کرتے ہوئے نیپرا کو قانون کے سیکشن 26 کے تحت عمل درآمد رپورٹ ایک مہینے کے اندر پیش کرنے کا حکم دے دیا جبکہ وفاقی حکومت کو 10 روز میں نیپرا ٹریبیونل کے اراکین تعینات کرنے کی بھی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سندھ میں غیراعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ سے متعلق اپیل پر سماعت کی، جہاں عدالت نے کے-الیکٹرک اور پاور ڈویژن پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے سماعت کے بعد تفصیلی حکم نامہ جاری کیا، جس کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ 'پاور ڈویژن کی جانب سے جواب داخل کرایا گیا اور عدالت نے اس کی جانچ کی جو ناقابل قبول تھا'۔

مزید پڑھیں: کرنٹ سے ہلاکتوں کے مقدمے میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام شامل کیا جائے، چیف جسٹس

انہوں نے کہا کہ پاورڈویژن کا جواب عدالت کے احکامات کے مطابق نہیں ہے اور کےالیکٹرک کے خلاف نیپرا جو کچھ کررہا ہے اس کے برعکس ہے۔

تفصیلی حکم نامے میں کہا گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاورڈویژن اور نیپرا کے ساتھ ساتھ این ٹی ڈی سی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے تحریر کیا کہ وزارت توانائی کو تمام متعقلہ اداروں سے مکمل رابطے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور کے-الیکٹر کے ساتھ ون ونڈو آپریشن ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کے-الیکٹرک کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حکومت کے مختلف اداروں یا ایجنسیوں تک رسائی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

عدالت عظمیٰ نے لکھا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان 13 اگست کو کے-الیکٹرک سے متعلق سماعت میں پیش ہوئے تھے اور اب کراچی کے حالات بد سے بدتر ہوچکے ہیں اور مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔

کراچی میں بجلی کی صورت حال پر حکم نامے میں انہوں نے کہا کہ تقریباً آدھے کراچی میں بجلی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کے-الیکٹرک کو نجی کمپنی کی حیثیت سے اپنے ذیلی اسٹیشنوں اور ڈسٹریبیوشن نیٹ ورک سے بارش کے پانی کو نکالنے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لانے چاہیے اور حکومتی تعاون کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی والے کے الیکٹرک کی اجارہ داری کا خمیازہ بھگت رہے، ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے'

انہوں نے کہا کہ کے-الیکٹرک ایک نجی کمپنی ہے، جس کو اپنے کام خود کرنے ہیں اور اس کابنیادی کام کراچی شہر کو بجلی فراہم کرنا ہے اور اس میں تعطل نہیں آنا چاہیے۔

نیپرا کو 1997 کے ایکٹ کے سیکشن 26 پر عمل درآمدر کی اجازت دیتے ہوئے حکم نامے میں کہا گیا کہ اتھارٹی اس سیکشن کے تحت اختیارات کا تعین کرسکتی ہے۔

عدالت نے واضح کیا کہ ان اقدامات کے دوران اتھارٹی کو کسی عدالت کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اور اتھارٹی ایک مہینے میں پیش رفت رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کرے گی۔

وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ 1997 کے ایکٹ کے سیکشن 12 اے کے تحت وفاقی حکومت کو اپیلیٹ ٹریبیونل تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹربیونل کی تشکیل سے متعلق آگاہ کیا گیا لیکن تاحال اراکین تعینات نہیں کیے، وفاقی حکومت 10 دن کے اندر اراکین منتخب کرکے ٹریبیونل کو فعال بنائیں اور فوری کام شروع کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔

چیف جسٹس نے سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں: کراچی میں فیول کی عدم فراہمی پر لوڈشیڈنگ کا 'کے الیکٹرک' کا دعویٰ مسترد

قبل ازیں دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کیا کر رہی ہے، حکومت کیا ایسے پاکستان چلائے گی، کراچی کے کرتا دھرتا تو منہ سے نوالہ بھی چھین لیتے ہیں، وفاقی حکومت بالکل بے بس ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ 2015 سے کے الیکٹرک نے حکومت کو ایک روپیہ نہیں دیا، کے الیکٹرک عوام کو بجلی اور حکومت کو پیسے نہیں دیتی، خواہ مخواہ کہا جاتا ہے کراچی معیشت کا 70 فیصد دیتا ہے، کراچی کے پاس دینے کے لیے اب کچھ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں اربوں روپے جاری ہوئے پر خرچ کچھ نہیں ہوا، کراچی والوں کے بیرون ملک اکاؤنٹ فعال ہوچکے ہیں، شہر میں مال بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور پہلے ہی اربوں روپے بیرون ملک جاچکے ہیں، وفاقی حکومت کی آخر رٹ کہاں ہے۔

کراچی کے میئر کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ 4 سال تک میئر رہنے والے نے ایک نالی تک نہیں بنائی۔

مزید برآں سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک کے خلاف نیپرا اقدامات پر جاری شدہ حکم امتناع بھی خارج کردیا، اس کے علاوہ عدالت نے نیپرا سے کارروائی پر مبنی رپورٹ بھی طلب کرلی۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ، کرنٹ لگنے سے لوگوں کی ہلاکت کے معاملے پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہی سماعت کی تھی اور شہر کو بجلی فراہم کرنے والے واحد ادارے کے الیکٹرک پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ: نیپرا نے کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کردیا

چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ کے الیکٹرک کی اجارہ داری ہے، جس کا خمیازہ کراچی والے بھگت رہے ہیں، ہماری حکومت کا حال دیکھیں ایسی کمپنی کو کراچی دیا ہوا ہے، جو ڈیفالٹر کمپنی ہے اس کا مالک جیل میں بند ہے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس گلزار نے کہا تھا کہ یہ لوگوں کی زندگی کا معاملہ ہے، ہم لوگوں کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔

مزید یہ کہ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران چیئرمین نیپرا نے بتایا تھا کہ کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی ہو تو یہ حکم امتناع لے لیتے ہیں، ان کے سارے معاملات گیس اور فیول اور بجلی کی پیداوار تک سب خراب ہے۔

جس پر عدالت نے کے الیکٹرک کی درخواستوں پر دیے گئے حکم امتناع کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں