سرحدی کشیدگی: چین اور بھارت کا ایک دوسرے پر فائرنگ کا الزام

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2020
دونوں ممالک کے دوران ہمالیائی حصے میں کشیدگی جاری ہے—فوٹو: اے پی
دونوں ممالک کے دوران ہمالیائی حصے میں کشیدگی جاری ہے—فوٹو: اے پی

چین اور بھارت کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور بیجنگ نے نئی دہلی پر الزام لگایا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے دوطرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کی اور چینی اہلکاروں کے ساتھ تصادم کے دوران ہوا میں انتباہی فائرنگ کی۔

غیر ملکی خبررساں اداروں اے پی اور رائٹرز کی رپورٹس کے مطابق چینی فوج کے مشرقی کمانڈ تھیٹر کے ترجمان ژینگ شوئلی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ چینی سرحدی گارڈز نے صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے 'جوابی اقدامات' کیے۔

تاہم بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ اقدامات کیا تھے یا آیا چینی فوجیوں کی جانب سے بھی انتباہی فائرنگ کی گئی؟

مزید پڑھیں: بھارت نے چین کے ساتھ مشرقی سرحد میں اپنی فوج کی تعداد بڑھا دی

دوسری جانب بھارت نے سرحدی معاہدے کی خلاف ورزی کے چینی الزامات کو مسترد کیا اور یہ الزام لگایا کہ سرحدی کشیدگی کے دوران آمنے سامنے آنے پر چینی فوجیوں نے ہوائی فائرنگ کی۔

بھارتی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ 'یہ پی ایل اے (پیپلز لبریشن آرمی) ہے جو معاہدوں کی صریح خلاف ورزی کر رہی ہے اور جارحانہ مشقیں کر رہی ہے جبکہ عسکری، سفارتی اور سیاسی سطح پر رابطے جاری ہیں'۔

بیان میں کہا گیا کہ چینی فوجیوں نے مغربی ہمالیہ کے لداخ سیکٹر میں بھارتی فوجیوں کے اگلے مورچوں کے قریب آنے کی کوشش کی اور جب وہ بھارتی فوجیوں سے ملے تو پی ایل اے نے ہوا میں کچھ راؤنڈز فائر کیے۔

ژینگ شوئلی کا کہنا تھا کہ 'ہم بھارت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر خطرناک اقدامات کو روکے اور سختی سے تحقیقات کرے اور ان اہلکاروں کو سزا دے جنہوں نے فائرنگ کی تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہونے کو یقینی بنایا جاسکے'۔

واضح رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 3 ہزار 500 کلومیٹر (2 ہزار 175 میل) کی متنازع اور غیرمتعین سرحد کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے اور یہ شمال میں لداخ ریجن سے بھارتی ریاست اروناچل پردیش تک پھیلی ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ کئی ماہ سے مغربی ہمالیائی حصے میں فوجیں موجود ہیں جہاں دونوں فریقین ایک دوسرے پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف وزری کا الزام لگاتے ہیں۔

قبل ازیں 20 جون کو گالوان وادی میں کشیدگی کے دوران 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹنے پر رضامند ہوئے تھے۔

تاہم مذاکرات کے کئی دور کے باوجود مختلف مقامات پر فوجیں آمنے سامنے ہیں جس میں انتہائی بلندی کا مقام پیانگونگ تسو جھیل بھی شامل ہے جس کے بارے میں دونوں ممالک دعویٰ کرتے ہیں۔

31 اگست کو چین اور بھارت دونوں نے ہمالیہ کی سرحد پر ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: چین اور بھارت کا ایک دوسرے پر پھر سرحدی اشتعال انگیزی کا الزام

بھارتی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ '29 اور 30 اگست 2020 کی درمیانی شب کو پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے لداخ کے مشرقی حصے میں جاری کشیدگی کے دوران فوجی اور سفارتی رابطوں کے دوران ہونے والے گزشتہ اتفاق رائے کی خلاف ورزی کی اور اشتعال انگیز فوجی نقل و حرکت کی تاکہ حیثیت کو تبدیل کیا جائے'۔

چین کی فوج نے جواب میں کہا تھا کہ بھارتی فوج نے 4200 میٹر بلندی پر واقع جھیل کے قریب پینگونگ تسو کے مقام پر سرحد عبور کی اور اشتعال انگیزی کرتے ہوئے سرحد میں حالات میں تناؤ پیدا کردیا۔

یہ بھی مدنظر رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان تقریباً 3500 کلومیٹر (2 ہزار میل) طویل متنازع سرحد کے باعث 1962 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی تھی، تاہم نصف صدی کے دوران رواں موسم گرما میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں