اقوام متحدہ کا پاکستان میں صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان پر حملوں پر اظہار تشویش

08 ستمبر 2020
روپرٹ کولویلے نے چند سماجی کارکنوں پر توہین مذہب کے الزامات کو خصوصی طور پر پریشان کن قرار دیا — فائل فوٹو / اے ایف پی
روپرٹ کولویلے نے چند سماجی کارکنوں پر توہین مذہب کے الزامات کو خصوصی طور پر پریشان کن قرار دیا — فائل فوٹو / اے ایف پی

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کے خلاف تشدد کی دھمکیوں کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ان کے تحفظ کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ اس کی پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کے خلاف آن لائن اور آف لائن تشدد پر اکسانے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش بڑھ رہی ہے۔

جنیوا میں پریس بریفنگ کے دوران اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق روپرٹ کولویلے نے کہا کہ گزشتہ ماہ پاکستان کی متعدد خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اپنے مشترکہ بیان میں ان کے خلاف سوشل میڈیا پر حملوں اور باضابطہ مہم پر خبردار کیا تھا جو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔

روپرٹ کولویلے نے چند سماجی کارکنوں پر توہین مذہب کے الزامات کو خصوصی طور پر پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے الزامات افراد کو تشدد کے بےبناہ خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین صحافیوں کا 'ڈیجیٹل بدزبانی کے خلاف اتحاد'، مطالبات پیش

انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون سماجی کارکن پر حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا اور ٹوئٹ کے بعد ان کے خلاف پولیس شکایت درج کرائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سماجی کارکن کو بےشمار پیغامات ملے جن میں انتہائی توہین آمیز اور پرتشدد زبان استعمال کی گئی جس میں صنفی امتیاز اور موت کی دھمکیاں بھی شامل تھیں، جبکہ ان کی ذاتی معلومات بھی ٹوئٹر پر سامنے لائی گئیں۔

اقوام متحدہ کا بیان ایمنسٹی انٹرنیشنل کے 25 اگست کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں اس نے پاکستان بھر میں تیزی سے بڑھتے ہوئے توہین مذہب کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ حالیہ واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ توہین مذہب کے قانون کو فنکاروں، انسانی حقوق کے کارکان اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: خواتین صحافیوں کا ’حکومت سے وابستہ لوگوں' کے آن لائن حملوں سے تحفظ کا مطالبہ

'صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان کا تحفظ یقینی بنایا جائے'

اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں کم از کم چار صحافیوں اور بلاگرز کو ان کی رپورٹنگ کی بنا پر قتل کیا گیا جن میں لاہور میں مقامی اخبار کے اجرا کی کوشش کرنے والی عروج اقبال کا قتل بھی شامل ہے۔

انہوں نے گزشتہ ہفتے صحافی شاہینہ شاہین کے قتل کا بھی حوالہ دیا جنہیں تربت میں ان کے گھر میں قتل کیا گیا۔

پولیس کا اس وقت کہنا تھا کہ شاہینہ شاہین کو بظاہر گھریلو تنازع پر قتل کیا گیا۔

روپرٹ کولویلے نے صحافیوں کو بتایا کہ 'اس طرح کے بیشتر واقعات میں ذمہ داران سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی نہ ان پر مقدمہ چلایا گیا۔'

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: تربت میں خاتون صحافی شاہینہ شاہین قتل

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے حکومت سے براہ راست تشویش کا اظہار کیا اور اس سے دھمکیوں کا نشانہ بننے والے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کے تحفظ کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم فوری، موثر، جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں تاکہ تشدد اور قتل کے واقعات میں احتساب کو یقینی بنایا جاسکے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'انسانی حقوق کا دفتر پاکستانی قیادت سے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے لیے اکسانے کے واقعات اور ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے توہین مذہب کے قوانین کے بڑھتے ہوئے استعمال کی بھرپور مذمت کرے۔'

تبصرے (0) بند ہیں