صحافی کی سپریم کورٹ سے توہین عدالت کے اختیار پر غور کرنے کی درخواست

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2020
مطیع اللہ جان کو اپنی ایک ٹوئٹ پر توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے—فائل فوٹو: فیس بک
مطیع اللہ جان کو اپنی ایک ٹوئٹ پر توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے—فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد: صحافی مطیع اللہ جان نے سپریم کورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ جس ٹوئٹ پر انہیں توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے اس کا مقصد صرف اس ایک (عدالتی) حکم پر اپنی مایوسی کا اظہار کرنا تھا جس پر معاشرے کے ایک بڑے حصے کی جانب سے تنقید کی جارہی تھی۔

اپنے وکیل بابر ستار کے توسط سے سپریم کورٹ میں جمع جواب میں انہوں نے کہا کہ 'اگر اسے نامناسب الفاظ سمجھا گیا اور معزز ججز کی پریشانی کا سبب بنا تو (انہیں) اس پر افسوس ہے'۔

تاہم انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ ایک سنائے گئے فیصلے پر کسی کی دیانت دارانہ رائے/ردعمل کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور عدلیہ کی جانب سے توہین عدالت کی سزا دینے کے بجائے اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ججز پر 'تنقید' کا معاملہ: صحافی مطیع اللہ جان کو عدالت عظمیٰ کا نوٹس جاری

عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں مطیع اللہ جان نے عدالت سے اپنے خلاف 15 جولائی کا توہین عدالت کا نوٹس واپس لینے اور کارروائی ختم کرنے کی استدعا کی۔

مزید یہ کہ انہوں نے توہین عدالت آرڈیننس 2003 کو چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ اس نے آئینی تحفظ کے حامل اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 19 کی خلاف ورزی کی ہے۔

جواب میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس ختم کردینا چاہیے کیوں کہ یہ پہلے تاثر پر اٹھایا جانے والا اقدام تھا جس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔

جواب میں یہ بھی لکھا گیا کہ کیبل نیوز چینل پر رائے کی تشکیل میں 'ریاستی اداروں کے اثر' کے باعث فریق سمیت متعدد صحافی اپنا مواد یوٹیوب اور ٹوئٹر پر لے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا مطیع اللہ جان کے اغوا کا نوٹس، پولیس سے رپورٹ طلب

انہوں نے مزید لکھا کہ 'آن لائن اظہار رائے کو محدود کرنے کا یہ غیر معمولی اقدام صحافیوں اور شہریوں سے آن لائن مارکیٹ پلیس میں بامعنی شراکت کا موقع چھین لے گا'۔

صحافی کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی گلوبلائزیشن اور کاروباری مقاصد اور روزگار کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کے پھیلاؤ کے ساتھ عدالت عظمیٰ کو چاہیے کہ وہ اس رد عمل کو بھی مد نظر رکھے جو آن لائن مواد کی نگرانی کرنے کے لیے توہین عدالت کا اختیار استعمال کرنے کی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے۔

عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں مزید کہا گیا کہ 'جو نئی بود و باش ہمیں اختیار کرنی ہے، جس نئی حقیقت کا ہمیں سامنا کرنا ہے وہ یہ ہے کہ آن لائن سوشل میڈیا فورمز کو یہاں رہنا ہے'۔

صحافی کا کہنا تھا کہ 'ترقی پسند معاشرے اس نئی حقیقت کو قبول کر کے اسے خود کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: مطیع اللہ جان کا اغوا: کس کی اتنی ہمت ہے کہ پولیس کی وردی میں یہ کام کیا، عدالت

جواب میں استدعا کی گئی کہ مذکورہ معاملے کو خارج کرنے کے لیے توہین عدالت آرڈیننس کی دفعہ 11 کے مطابق سب سے سینئر جج کے سامنے معاملے کو مقرر کیا جائے۔

خیال رہے کہ صحافی مطیع اللہ جان کو اپنی ایک ٹوئٹ پر توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے، انہیں 21 جولائی کو دن دیہاڑے نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا اور اس پر آنے والے سخت رد عمل کے بعد انہیں رات کو دور دراز علاقے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں