امریکی وفد کی آرمی چیف سے ملاقات، افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2020
آرمی چیف نے خطے میں امن کے لیے پاکستان کا عزم دہرایا—فوٹؤ:آئی ایس پی آر
آرمی چیف نے خطے میں امن کے لیے پاکستان کا عزم دہرایا—فوٹؤ:آئی ایس پی آر

امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے وفد کے ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) جنرل بابر افتخار نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ 'افغان امن عمل کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں ایک وفد نے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی'۔

مزید پڑھیں:دوحہ: افغان حکومت اور طالبان میں امن مذاکرات کا آغاز

آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی وفد سے ملاقات کے موقع پر افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی سفارت کار محمد صادق اور دیگر بھی موجود تھے جہاں 'دوطرفہ مفادات، خطے کی سیکیورٹی اور افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا'۔

بیان میں کہا گیا کہ 'وفد نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا اور کہا کہ پاکستان کی دیانت دارانہ اور غیر مشروط تعاون کے بغیر یہ کامیابی نہیں مل سکتی تھی'۔

ڈی جی آئی ایس پی کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا کہ 'وزیراعظم عمران خان نے خطے میں امن اور رابطہ کاری کے حوالے سے واضح وژن دیا ہے'۔

آرمی چیف نے وزیراعظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'قومی طاقت کے تمام عناصر اس وژن کو حقیقت میں بدلنے کے لیے متحد ہیں تاکہ خطے میں پائیدار امن، ترقی اور استحکام کو یقینی بنایا جائے'۔

خیال رہے کہ افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے مقصد کے تحت پہلی مرتبہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز 12 ستمبر کو ہو چکا ہے۔

دوحہ میں ہونے والے تاریخی امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب کا آغاز قطری وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے کیا، جس میں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد شریک تھے۔

مذاکرات میں فریقین ان مشکل معاملات سے نمٹنے کی کوشش کریں گے جس میں مستقل جنگ بندی، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور ہزاروں طالبان جنگجو اور ملیشیا کا غیر مسلح ہونا شامل ہے، جس میں سے کچھ حکومت کے ساتھ اتحاد میں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ افغانستان کی طرف سے آئینی تبدیلی اور اختیارات کے تبادلے سے متعلق بھی بات چیت متوقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امن مذاکرات کے باوجود افغانستان میں جھڑپیں جاری

افغان حکومتی نمائندوں کی ٹیم میں 4 خواتین بھی شامل ہیں جو طالبان کے ساتھ کسی بھی طرح کے اختیارات کے تبادلے کے معاہدے میں خواتین کے حقوق کو محفوظ رکھنے پر زور دیں گی، ان حقوق میں کام کرنے کا حق، تعلیم اور سیاسی زندگی میں شرکت شامل ہے جن کی طالبان کے ان 5 سالہ دور میں اجازت نہیں تھی جب وہ افغانستان پر حکومت کرتے تھے۔

تاہم طالبان کی مذاکراتی ٹیم، جس کی سربراہی ان کے چیف جسٹس عبدالحاکم کر رہے ہیں، اس میں کوئی خاتون رکن شامل نہیں ہے۔

اس سے قبل زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ مذاکرات کا آغاز ایک اہم کامیابی ہے لیکن 'معاہدے تک پہنچنے کے لیے مشکلات اور اہم چیلنجز ہیں'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'یہ طالبان اور حکومت دونوں کے لیے ٹیسٹ ہے اور کیا وہ افغانستان کے مستقبل کے لیے اپنے نظریات میں اختلافات کے باوجود معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں'۔

بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں افغان حکومت اور امریکا سمیت دیگر اتحادیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم طالبان نے مذاکرات کی میز پر آنے سے قبل عارضی جنگ بندی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: افغانستان کے آئندہ سیاسی نظام کا فیصلہ افغانوں کو کرنا ہے، مائیک پومپیو

افغان حکومت کی جانب سے امن عمل کی سربراہی کرنے والے عبداللہ عبداللہ نے تجویز دی کہ طالبان اپنی جنگجو قیدیوں کی رہائی کے بدلے جنگ بندی کی پیشکش کرسکتے تھے، 'یہ ان کے خیالات میں سے ایک خیال یا ایک مطالبہ ہوسکتا تھا'۔

خیال رہے کہ 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے، اس وقت اس معاہدے کو 40 سال سے جاری جنگ میں امن کا بہتری موقع قرار دیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ 29 فروری کو معاہدے کے چند ہفتوں میں مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا تاہم شروع سے ہی اس ٹائم لائن میں تاخیر کے باعث خلل پڑنا شروع ہوگیا تھا۔

امریکا کے ساتھ ہوئے طالبان کے معاہدے میں سے قبل ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ افغان حکومت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان بدلے میں ایک ہزار حکومتی اور عسکری اہلکاروں کو اپنی حراست سے چھوڑیں گے تاہم اس میں مسائل کا سامنا رہا اور افغان حکومت اس سے گریز کرتی نظر آئی۔

تبصرے (0) بند ہیں