اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل میں متفرق درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ قانون کے تحت جب ایک شخص عدالت سے اشتہاری قرار دے دیا جائے تو وہ اپیل کا حق کھو دیتا ہے اس لیے نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید، فلیگ شپ ریفرنس میں بری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی متفرق درخواستوں پر تحریری حکمنامہ جاری کیا ہے۔

5 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریر کیا ہے۔

علاوہ ازیں فیصلے میں وفاقی حکومت کو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے عدالتی حکم پر عملدرآمد کرنے کا حکم بھی دیا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ نواز شریف کے وکیل کے مطابق نواز شریف کی طبیعت ان کو سفر کی اجازت نہیں دیتی اور وکیل نے نواز شریف کے معالج ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کی رپورٹ عدالت میں پیش کیں نواز شریف کی عدم حاضری پر ان کی اپیل خارج کی جاتی ہے۔

حکم نامے کے مطابق نواز شریف اسلام آباد کی احتساب عدالت سے سزا یافتہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: سزا کے خلاف درخواست، نواز شریف کو حاضری سے استثنیٰ حاصل

تحریری حکم نامے کے مطابق 9 ستمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا جبکہ قانون کے تحت جب ایک شخص عدالت سے اشتہاری قرار دے دیا جائے تو وہ اپیل کا حق کھو دیتا ہے۔

تحریری فیصلےمیں کہا گیا کہ اپیل کی سماعت کےلیے ملزم کا عدالت میں پیش ہونا لازمی ہے اس لیے نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست نمٹائی جاتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر میرٹ پر فیصلہ ہوگا اور نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت سے قبل نواز شریف کی حاضری یقینی بنانے کی کارروائی ہوگی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی عدم حاضری پر ان کے 22 ستمبر کے لیے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

نواز شریف، اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

خیال رہے کہ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے مقرر

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں