اسلام آباد ہائی کورٹ کا سیکریٹری خارجہ کو نواز شریف کی حاضری یقینی بنانے کا حکم

نواز شریف کی استثنیٰ درخواست بھی مسترد کردی گئی تھی—فائل/فوٹو:اے پی پی
نواز شریف کی استثنیٰ درخواست بھی مسترد کردی گئی تھی—فائل/فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ کو 22 ستمبر کو عدالت میں ان کی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

علاوہ ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری موصول ہوگئے۔

اسسٹنٹ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری وارنٹ میں کہا گیا کہ عدالت نے 15 ستمبر کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر سماعت کے دوران ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

سیکریٹری خارجہ کو ہدایت کی گئی کہ نواز شریف کی 22 ستمبر کو صبح 11 بجے عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لیے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے وارنٹ بھیجے جائیں اور نواز شریف کو عدالت کی جانب سے مقرر کردہ تاریخ میں پیش کیا جائے۔

مزید پڑھیں:العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

اسسٹنٹ رجسڑار کی جانب سے جاری حکم نامے میں خط بھی منسلک کیا گیا۔

دوسری جانب نوازشریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری اور طلبی کے تمام حکم نامے بھی برطانیہ ارسال کردیے گئے ہیں، نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری پارک لین لندن کے پتے پر ارسال کیے گئے ہیں۔

وہیں لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری موصول ہوگئے۔

تاہم کمیشن کی جانب سے اس پر کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا گیا لیکن ذرائع نے تصدیق کی کہ مشن کو نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری سے متعلق کاغذی کارروائی کا خط موصول ہوگیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں تمام قانونی طریقہ کار اور ذمہ داریوں پر عمل کیا جائے گا۔

خط میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کو کسی دوسری تاریخ کو بھی حاضر ہونا پڑے گا جو عدالت کی جانب سے مقرر کی جاسکتی ہے، اس خط کے ساتھ رواں ہفتے کے آغاز میں جاری ہونے والے عدالتی حکم کو بھی لگایا گیا۔

واضح رہے کہ 2017 میں ہائی کمیشن کو حسن، حسین، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی نیب کیسز میں گرفتاری کےلیے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری موصول ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ 15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل عدالت کے دو رکنی بینچ نے نمائندے کے ذریعے اپیلوں کی پیروی کی درخواست بھی مسترد کی تھی۔

قبل ازیں عدالت نے 10 ستمبر کو مقدمے کی سماعت کے دوران نواز شریف کو سرینڈر کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ دوسری عدالت میں انہیں مفرور قرار دیا گیا ہے جبکہ ان کی درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 9 ستمبر کو توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، عبدالغنی مجید اور انور مجید پر فرد جرم عائد کردی تھی جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:توشہ خانہ ریفرنس: آصف زرداری پر فرد جرم عائد، نواز شریف اشتہاری قرار

احتساب عدالت کے جج سید اصغر علی نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کی تھی اور کیس کی سماعت کو 24 ستمبر تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی تفصیلات طلب کرلیں۔

عدالت نے کہا تھا کہ 7 دن میں یہ تفصیلات پیش کی جائیں جبکہ عدالت نے نواز شریف کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کی قانونی ٹیم کی جانب سے جمع کرائی گئی ان کی میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹرز نے کورونا وائرس کی وجہ سے انہیں سفر کا مشورہ نہیں دیا کیونکہ انہیں ذیابیطس، بلند فشار خون اور گردوں اور دل کی بیماریاں لاحق ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا دل کے مریض ہونے کے باعث وہ کووڈ 19 کے خطرے سے دوچار ہیں۔

نواز شریف، اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

خیال رہے کہ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے مقرر

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں