آل پارٹیز کانفرنس: جدوجہد عمران خان کے نہیں انہیں لانے والوں کیخلاف ہے، نواز شریف

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2020
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں— فوٹو: اے پی پی
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں— فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے طویل عرصے بعد اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں حکومت اور اداروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری جدوجہد وزیراعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ 2018 انتخابات کے ذریعے انہیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے۔

اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی زیر قیادت آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں اپوزیشن کی مختلف جماعتوں نے شرکت کی تاہم جماعت اسلامی نے اس اے پی سی میں شرکت سے پہلے ہی انکار کردیا تھا۔

آج ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم)، جمعیت اہلحدیث اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما شریک ہوئے۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

اس آل پارٹیز کانفرنس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ اس میں علاج کے غرص سے لندن میں موجود مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کا بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا تھا۔

کانفرنس سے اپنے خطاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے سب سے پہلے آصف زرداری سمیت تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک روز قبل میری بلاول بھٹو سے بات ہوئی اور انہوں نے جس پیار، محبت سے مجھ سے بات کی، میں اسے کبھی نہیں بھلا پاؤں گا.

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'میں وطن سے دور ہوتے ہوئے بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ وطن عزیز کن حالات سے گزر رہا ہے اور عوام کن مشکلات کا شکار ہیں، یہ کانفرنس نہایت اہم موقع پر منعقد ہورہی ہے بلکہ میں تو اسے ایک فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں کیونکہ پاکستان کی خوشحالی اور صحیح جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر طرح کی مصلحت چھوڑ کر اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بے باک فیصلے کریں'۔

فیصلے آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے، نواز شریف

انہوں نے کہا کہ 'اگر ہم آج فیصلے نہیں کریں گے تو کب کریں گے، میں مولانا فضل الرحمٰن کی سوچ سے پوری طرح متفق ہوں کہ ہمیں رسمی اور روایتی طریقوں سے ہٹ کر اس کانفرنس کو بامقصد بنانا ہوگا ورنہ قوم کو بہت مایوسی ہوگی'۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ابھی آصف زرداری نے جو ٹرینڈ سیٹ کیا ہے اسی کو آگے لے کر چلنا ہے، آپ سب جانتے ہیں 73 برس سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے اور اس کی وجہ صرف ایک ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، یعنی ملک کا انتظام وہ لوگ چلائیں جنہیں عوام اپنے ووٹوں کی اکثریت سے یہ حق دیں جبکہ ہمارے آئین کی ابتدا بھی انہیں الفاظ سے ہوتی ہے'۔

دوران خطاب انہوں نے کہا کہ 'آئین کے مطابق ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے پر ہے لیکن جب جمہوریت کی اس بنیاد پر ضرب لگتی ہے اور ووٹ کی عزت کو پامال کردیا جاتا ہے تو سارا جمہوری عمل بالکل بے معنیٰ اور جعلی ہوکر رہ جاتا ہے، جب عوام کی مقدس امانت میں خیانت کی جاتی اور انتخابی عمل سے پہلے یہ طے کرلیا جاتا کہ کسے جتانا اور ہرانا ہے اور انتخابات میں دھاندلی سے مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ میں نکال دی جاتی ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے اور عوام کا مینڈیٹ کس طرح چوری کیا جاتا ہے'۔

اے پی سی میں حکومت مخالف حکمت عملی مرتب کی جائے گی—فوٹو: مسلم لیگ (ن) ٹوئٹر
اے پی سی میں حکومت مخالف حکمت عملی مرتب کی جائے گی—فوٹو: مسلم لیگ (ن) ٹوئٹر

انہوں نے کہا کہ 'بدقسمتی سے پاکستان کو اس طرح کے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا ہے، کبھی کوئی نمائندہ حکومت بن بھی جائے تو اسے ہر طرح کی سازش کے ذریعے سے پہلے بے اثر اور پھر فارغ کردیا جاتا ہے، اس سے یہ بھی پروا نہیں کی جاتی کہ اس سے ریاستی ڈھانچہ کمزور ہوگا، اقوام عالم میں جگ ہنسائی ہوگی اور عوام کا ریاستی اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات 'پاکستان کے بچے بچے کہ زبان پر ہے کہ 73 سال کی تاریخ میں ایک بار بھی کسی منتخب وزیراعظم کو اپنی 5 سال کی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، ہر آمر نے ملک میں اوسطاً 9 سال غیرآئینی طور پر حکومت کی جبکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کو اوسطاً 2 سال سے بھی زیادہ کا عرصہ شاید ہی ملا ہو'۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'جمہوریت کی مہم جوئی کو روکنے کے لیے 1973 کے آئین میں آرٹیکل 6 ڈالا گیا لیکن اس کے باوجود بھی 20 سال جرنیلی آمریت کی نذر ہوگئے'۔

انہوں نے کہا کہ 'جب ایک آمر کو آئین شکنی کے جرم میں پہلی بار عدالت میں لایا گیا تو آپ سب نے دیکھا کہ کیا ہوا، مجھے یہ کہنے میں دکھ ہوتا ہے کہ جس طرح ہر مارشل لا کو عدالتوں نے جائز قرار دیا، آمروں کو آئین سے کھلواڑ کرنے کا اختیار دیا، اسی طرح 2 مرتبہ آئین توڑنے والوں کو بریت کا سرٹیکیٹ بھی عدالتوں نے دیا'۔

آئین پر عمل کرنے والے کٹہروں میں کھڑے ہیں یا جیلوں میں ہیں، قائد مسلم لیگ (ن)

انہوں نے کہا کہ 'اس کے برعکس آئین پر عمل کرنے والے کٹہروں میں کھڑے ہیں یا جیلوں میں پڑے ہیں، ہماری تاریخ میں 33 سال کا عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہوگیا، یہاں صرف ایک آمر پر مقدمہ چلا، خصوصی عدالت بنی، کارروائی ہوئی، اسے آئین و قانون کے تحت سزا سنائی گئی لیکن ہوا کیا؟ کیا وہ ملک میں آگیا اور اسے سزا ملی؟ بلکہ ہوا تو یہ کہ وہ عدالت ہی غیر آئینی قرار دے دی گئی۔

نواز شریف کے مطابق 'پاکستان میں یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ کسی آمر کے بڑے سے بڑے جرم پر کوئی کارروائی نہ ہو، اگر کارروائی ہو بھی جائے تو کوئی اسے چھو بھی نہ سکے اور اگر کوئی فیصلہ آ بھی جائے تو صرف سزا ہی نہیں بلکہ عدالت کو بھی ہوا میں اڑا دیا جائے لیکن یہ سب آخر کب تک؟'

انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس ان سیاست دانوں کو دیکھیے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے، تو اس میں کوئی قتل ہوگیا، کوئی پھانسی چڑ گیا، کوئی ہائیجیکر بن گیا، کسی کو چور اور غدار قرار دیا گیا تو کسی کو جلا وطن کردیا گیا اور کوئی عمر بھر کے لیے نااہل ہوگیا، ان کے گناہ اور سزائیں ختم ہونے میں آ ہی نہیں رہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ جھوٹے مقدمات میں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیشیاں بھگت رہے ہیں، دراصل یہ سلوک پاکستان کے عوام کے ساتھ کیا جارہا ہے اور سزا بھی انہیں مل رہی ہے، اگر عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کس طرح اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں، کس طرح عوامی نمائندوں کی تزلیل ہوتی ہے، کس طرح کردار کشی کا ایک منظم سلسلہ شروع ہوجاتا، کس طرح قومی مفاد کے خلاف کسی سرگرمی کی نشاندہی کرنے پر انہیں ملک دشمن اور غدار قرار دے دیا جاتا ہے'۔

ریاست سے اوپر ریاست تک بات پہنچ گئی ہے، نواز شریف

انہوں نے کہا کہ 'خلاصہ یہ ہے کہ یہاں یا تو مارشل لا ہوتا ہے یا پھر منتخب جمہوری حکومت سے کہیں زیادہ طاقت ور متوازی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور ایک متوازی نظام چلتا ہے، ایک مرتبہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے جسے برداشت نہیں کیا جاسکتا، تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ اب معاملہ ریاست کے اوپر ریاست تک جاپہنچا ہے'۔

اپنے طویل خطاب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے اور نتیجاً متوازی حکومت کا مرض ہی ہماری مشکلات اور مسائل کی اصل جڑ ہے'۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری میں ہماری ساکھ ختم ہوکر رہ گئی ہے، 2018 کے انتخابات کے بعد متعدد ملکی اور غیر ملی اداروں کی طرف سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے، میں جیل میں تھا لیکن مجھے سب خبریں ملتی رہیں، ان کا کہنا تھا کہ جن حلقوں کے جہاں نتائج تبدیل کیے گئے ان کی تعداد اتنی ہے کہ اگر وہاں نتائج نہ تبدیل ہوتے تو بیساکھیوں پر کھڑی یہ حکومت کبھی وجود میں نہیں آسکتی تھی'۔

قوم کے حالات کی وجہ نااہل حکمرانوں کو مسلط کرنے والے ہیں، قائد مسلم لیگ (ن)

ان کا کہنا تھا کہ 'آج قوم جن حالات سے دوچار ہے اس کی وجہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عوام کی رائے کے خلاف نااہل حکمرانوں کو قوم پر مسلط کیا، انتخابات ہائی جیک کرکے انتخابات چند لوگوں کو منتقل کردینا بہت بڑی بددیانتی اور آئین شکنی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم چند روپے کی خاطر ڈاکا ڈالنے والوں کے لیے بڑی سے بڑی سزا کا تقاضہ کرتے ہیں لیکن عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا کتنا سنگین جرم ہے کیا کبھی کسی نے سوچا ہے'۔

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس گھنٹوں کیوں بند رکھا گیا، گتنی کے دوران پولنگ ایجنٹس کو کیوں باہر نکال دیا گیا، انتخابات میں دھاندلی کیوں اور کس کے کہنے پر کس کے لیے کی گئی اور کن مفادات کے لیے کی گئی، اس پر سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکریٹری الیکشن کمشنر کو بھی جواب دینا ہوگا اور جو لوگ بھی دھاندلی کے ذمہ دار ہیں ان سب کو حساب دینا ہوگا۔

مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری—فوٹو: مسلم لیگ (ن) ٹوئٹر
مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری—فوٹو: مسلم لیگ (ن) ٹوئٹر

نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'اس نااہل حکومت نے 2 برسوں میں ملک کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے، اس کا کوئی اندازہ لگاسکتا ہے، پاکستان کی معیشت بالکل تباہ ہوچکی ہے، 5.8 کی شرح ترقی سے بڑھتا ہوا پاکستان آج صفر سے بھی نیچے جاچکا ہے، پاکستانی روپیہ بھارت اور بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ افغانستان اور نیپال سے بھی زیادہ نیچے گرچکا ہے، جس مہنگائی پر ہم نے مکمل قابو پالیا تھا وہ آج کئی گنا بڑھ گئی ہے، غریب اور متوسط گھرانوں کے لیے 2 وقت کی روٹی محال ہوگئی ہے، بجلی اور گیس کے بل عام آدمی پر بم بن کر گرتے ہیں، گزشتہ 2 سال میں ڈیڑھ کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچے جاچکے ہیں، ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے والے ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کا روزگار چھین چکے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس نالائق حکومت نے ہر معاملے پر یوٹرن لیا ہے، آج سرمایہ کاری بالکل ختم ہوچکی ہے، سی پیک سخت الجھن کا شکار ہے، قرضے ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے 2 سال کی قلیل مدت میں قرضوں میں اتنا اضافہ کردیا ہے جس سے گزشتہ سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں جبکہ 2 سال میں کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا'۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان جس کے بارے میں بین الاقوامی ادارے یہ پیش گوئی کر رہے تھے یہ 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائے گا آج معاشی طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔

ووٹ کو عزت نہ ملی تو ملک معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا، قائد مسلم لیگ (ن)

بات کو جاری رکھتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ یاد رکھیں پاکستان میں اگر 'ووٹ کو عزت نہ ملی اور قانون کی حکمرانی نہ آئی تو یہ ملک معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا'، ان کا کہنا تھا کہ ساتھ ہی میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایسے ممالک اپنے دفاع کے قابل بھی نہیں رہتے خاص طور پر اس وقت جب آپ کے دشمن آپ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہوں۔

لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر پیش آئے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوم کی بیٹی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ دل دہلا دیتا ہے، اس سانحے کے بعد مزید تکلیف کا باعث اس 'سنگ دل' پولیس افسر کا بیان ہے جو بنیادی انسانی اقدار سے بھی محروم ہے، اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکومت کی ہمدردیاں قومی کی بیٹی کے بجائے اپنے چہیتے پولیس افسر کے ساتھ ہیں۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کھربوں روپے کے نقصان اور ہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجود ہم کبھی ایف اے ٹی ایف اور کبھی کسی اور کٹہرے میں کھڑے شرمناک صفائیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔

کشمیر سے متعلق انہوں نے کہا کہ کشمیر کا نام جب سامنے آتا ہے تو 73 سال سے دی جانے والی قربانیاں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں، کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ کئی سال سے جاری ہے لیکن اسے ہڑپنے کا سلسلہ کبھی نہیں ہوا لیکن اب بھارت نے غیرنمائندہ، غیرمقبول اور کٹھ پتلی پاکستانی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا اور ہم احتجاج بھی نہیں کرسکے، دنیا تو کیا ہم اپنے دوستوں کی حمایت بھی حاصل نہ کرسکے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیوں ہم عالمی تنہائی کا شکار ہوگئے، کیوں دنیا ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہے، کیوں ہمارے درینہ اور شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے ممالک دور ہوگئے، شاہ محمود قریشی نے کس منصوبے کے تحت وہ بیانات دیے جس سے ہماری درینہ دوست سعودی عرب کی دل شکنی ہوئی، پاکستان کو اپنے دوست ممالک کی دل آزاری کا اعتراف کرنا چاہیے۔

خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے، نواز شریف

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ ان تمام سوالوں کے جواب لیے جائیں، ملک میں خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے، یہاں موجود سابق وزرائے اعظم جانتے ہیں کہ سول حکومت کے گرد کس طرح کے شکنجے کس لیے جاتے ہیں، کس طرح ایسی کارروائیاں ہوجاتی ہیں جس کا وزیراعظم، صدر کو علم ہی نہیں ہوتا اور پھر ان کارروائیوں کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنا پڑتی ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'ایجنسیوں کے اہلکاروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنی، ثبوت کسی کے خلاف کچھ نہیں تھا لیکن پروپیگنڈا مشینوں کے ہاتھوں مجھے بھی غدار اور ملک دشمن ٹھہرادیا گیا'، وزیراعظم کے احکامات کو ایک ماتحت ادارے کی طرف سے کی گئی ٹوئٹ میں 'مسترد' کا عنوان دے دیا گیا۔

سی پیک سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کا سلسلہ 2014 میں اس وقت شروع ہوا جب دھرنوں کے ذریعے چین کے صدر کا دورہ ملتوی کروا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اب سی پیک کے ساتھ پشاور بی آر ٹی جیسا سلوک ہورہا، جہاں کئی سال گزر گئے، منصوبے سے کئی گنا زیادہ رقم خرچ ہوچکی مگر نتیجہ آج بھی آنکھوں سے اوجھل ہے، آئے دن بسوں میں آگ لگ جاتی اور بارش ناقص تعمیر کا پول کھول کر رکھ دیتی۔

ایک آمر کے بنائے ہوئے اس ادارے کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی، قائد مسلم لیگ (ن)

قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک آمر کے بنائے ہوئے اس ادارے کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی لیکن یہ سچ ہے کہ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ ادارہ اس حد تک گرسکتا ہے، یہ ادارہ نہیں بلکہ اندھے حکومتی اقدامات کا آلہ کار بن چکا ہے، اس کے کئی سینئر اہلکاروں کے گھناؤنے کردار فاش ہوچکے ہیں، اس ادارے کا چیئرمین جاوید اقبال اپنے عہدے اور اختیارات کا انتہائی نازیبا اور مذموم استعمال کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے مگر نہ تو کوئی انکوائری ہوتی اور نہ ہی کوئی ایکشن لیا جاتا ہے جبکہ نہ ہی شفافیت کے دعویدار عمران خان پر کوئی جوں رینگتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود یہ شخص ڈھٹائی سے اپنے عہدے پر براجمان، انتقام کے ایجنڈے پر عمل کرتا ہے لیکن بہت جلد ان سب کا یوم حساب آئے گا، بین الاقوامی ادارے اور ہماری اعلیٰ عدالتی نیب کے منفی کردار پر واضح رائے دے چکی ہیں، یہ ادارہ انتہائی بدبودار ہوچکا ہے، اپوزیشن کے لوگ اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جو اپنے گھر کی خواتین کے سامنے عدالتوں میں رُل رہے ہیں، جو نیب سے بچے وہ ایف آئی اے کے حوالے کردیا جاتا اور جو وہاں سے بچتا ہے وہ انسداد منشیات فورس کے ہتھے چڑ جاتا جبکہ جو وہاں سے بچتا ہے اسے کسی بھی جھوٹے مقدمے میں پکڑ لیا جاتا ہے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2018 میں سینیٹ انتخابات سے کچھ عرصے قبل ایک مذموم سازش کی گئی، 'اس مذموم سازش کے ذریعے بلوچستان کی صوبائی حکومت گرادی گئی، جس کا اصل مقصد سینیٹ کے انتخابات میں سامنے آیا'۔

انہوں نے کہا کہ اس سازش کے کرداروں میں 'لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، جو اس وقت کے کمانڈر سدرن کمانڈ تھے ان کا نام بھی آتا ہے'، یہ وہی 'عاصم سلیم باجوہ ہیں جن کے خاندان کی بے پناہ دولت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثوں کی تفصیلات پوری قوم کے سامنے آچکی ہے'۔

اپنے خطاب میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'ان حقائق کو نہ صرف چھپایا گیا بلکہ مبینہ طور پر ایس ای سی پی کے سرکاری ریکارڈ میں بھی ردوبدل کیا گیا، 15 سے 20 سال کے عرصے میں اربوں روپے کے یہ اثاثے کہاں سے بن گئے، یہ پوچھنے کی کسی کی مجال نہیں، میڈیا پر خاموشی چھا گئی، نہ نیب حرکت میں آئی نہ کسی عدالت نے نوٹس لیا اور نہ ہی کوئی جے آئی ٹی بنی اور نہ ہی کوئی ریفرنس دائر ہوا'۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'نہ کوئی نگران جج بیٹھا، نہ کوئی پیشی ہوئی اور نہ ہی کوئی سزا، احتساب کا نعرہ لگانے اور این آر او نہ دینے کے بڑے دعوے کرنے والے عمران خان نے بھی ان اثاثوں کے ذرائع پوچھنے کی جرات تک نہیں کی بلکہ ایک پل میں انہیں ایمانداری کا سرٹیکفیٹ جاری کردیا گیا، یہ سب آپ کے سامنے ہوا'۔

انہوں نے کہا کہ 'میڈیا پر پہلی بار اس اسکینڈل کا ذکر تب ہوا جب عاصم سلیم باجوہ خود ٹی وی پر آئے'۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'اس حکومت کے 2 برس میں یہ کوئی پہلا مالی بدعنوانی کا اسکینڈل نہیں، یہاں کئی انتہائی سنگین اسکینڈل سامنے آچکے ہیں، جن کا نقصان براہ راست غریب عوام کو پہنچا، حکومت میں بیٹھے لوگ باقاعدہ منصوبہ بندی سے آٹے، چینی اور ادویات کی قیمتیں آسمان پر لے گئے، عوام کے کھربوں روپے لوٹ لیے گئے، ملک حکمران اگرچہ کرپشن مافیاز اور این آر او کو ڈھنڈورا پیٹتا ہے لیکن چینی کی قیمتیں بڑھانے میں خود ان کی ذات ملوث ہے'۔

انہوں نے سوالات کیے کہ نیب انہیں تحقیقات کے لیے گرفتار نہیں کرے گا؟ کیا ان پر کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوگا؟ علیمہ خان کے بیرون ملک اثاثوں کی تحقیقات کی کوئی جانچ پڑتال نہیں کرے گا؟ بنی گالا میں عمران خان کے ذاتی گھر اور ان کے غیرقانونی تعمیرات کی فائل کیا ایسے ہی بند رہے گی؟ غیرملکی فنڈنگ کیس میں کیا الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ نہیں کرے گی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب آج تک سامنے نہیں آیا، ہم کب تک انتظار کریں، کیا ان تمام لوگوں پر کوئی فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہوگا؟ کیا بنی گالا میں زمین کی خرید کی منی ٹریل پر کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی؟ کہ اتنی بڑی جائیداد کہاں سے اور کیسے بنی؟ اس میں بہت کرپشن اور شکوک و شبہات ہیں۔

دوران خطاب ان کا کہنا تھا کہ 'عمران خان نے اربوں کی جائیداد کے باوجود 2 لاکھ 83 ہزار روپے کا ٹیکس دیا، سوال یہ ہے کہ جب آمدنی اتنی قلیل ہے تو آپ کے لاہور کے زمان پارک کے گھر پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے کہاں سے آئے، یہ بتانا ہوگا، کیا نیب ان آمدن سے زیادہ اثاثوں پر کوئی ایکشن نہیں لے گا'۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'احتساب کے اداروں کو اپوزیشن کے سوا کسی کے اثاثے اور آمدنی کے ذرائع نظر نہیں آتے، ریاست مدینہ تو بہت بلند و برتر مثال ہے، قانون و انصاف کا ادنیٰ معیار رکھنے والی ریاست میں بھی ایسا نہیں ہوتا، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کیا کچھ لوگ اس دہرے معیار کی وجہ سے کسی جرم کے بغیر سزائیں پاتیں رہیں گے اور کیا کچھ لوگ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی بے گناہی کے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے رہیں گے، قوم کب تک یہ سب دیکھتی رہے گی؟'

انہوں نے کہا کہ فیصلہ کرلیں آج کہ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسا پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں؟، میرا جواب تو ہوگا نہیں، ہرگز نہیں کبھی بھی نہیں۔

ذرائع ابلاغ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور اظہار کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے، افسوس دیگر حقوق کی طرح پاکستان کے عوام سے یہ حقوق بھی چھین لیا گیا۔

ریاستی طاقت سے میڈیا کی زبان بندی کہاں کا انصاف ہے؟ نواز شریف

انہوں نے کہا کہ 'ریاستی طاقت سے میڈیا کی زبان بندی کہاں کا انصاف ہے، صحافیوں بالخصوص خواتین صحافیوں کو سرکاری ایجنسیز کا اٹھا کر لے جانا اور تشدد کا نشانہ بنانا، بزدلانہ اور انتہائی قابل مذمت ہے، سینئر صحافیوں کو چینلز یا اخبارات کی ملازمت سے برخاست کرادینا، بےبنیاد مقدمات میں الجھا دینا اور قید میں ڈال دینا کیا ایک جمہوری ریاست کا طریقہ ہے'۔

کانفرنس کے شرکا سے درخواست کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب یہ عہد کریں کہ ہم میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی حفاظت کریں گے اور اس کے آزادی پر کوئی قدغن قبول نہیں کریں گے۔

اپنے طویل خطاب میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو کمزور کرنے اور اپنا مخصوص ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے 'تقسیم کرو' کی پالیسی معمول بن چکی ہے، 'کچھ عرصے قبل تک یہ تقسیم سیاست دانوں تک محدود تھی، جنہیں مختلف مخصوص حلقوں کی طرف سے بلایا، ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا، یہ طریقہ سیاسی جماعتیں توڑنے، فارورڈ بلاک بنانے یا پھر مرضی کی جماعتیں بنانے کے لیے استعمال ہوتا رہا اور آج بھی ہوتا ہے، محکمہ زراعت کو تو آپ سمجھتے ہی ہیں؟'

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ایک ہیں اور قومی مفاد کی خاطر تقسیم ہونے سے انکار کرتے ہیں، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر یہ کانفرنس کامیاب ہے، اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ کانفرنس ہماری تاریخ کا سنگ میل بن سکتی ہے، اب 'تقسیم کرو' کا یہ ہتھیار نہ صرف وکلا، دانشوروں، تاجروں، صنعتکاروں اور میڈیا کے لیے استعمال ہورہا ہے بلکہ اب عدلیہ بھی اس کا ہدف ہے، جو جج انصاف اور قانون کی راہ پر چلتا ہے اور دباؤ میں آنے سے ہٹتا ہے اسے عہدے سے ہٹانے کی سازش ہوجاتی ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، یہ دونوں جج دیانت داری، امانت داری کی شہرت کے حامل ہیں، آج تک کسی فورم نے یہ تحقیق ضروری ہی نہیں سمجھی کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جو کچھ حلفیہ کہا اس کا بھی جائزہ لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 'یہاں انصاف پسند اور امانت دار نہیں بلکہ ایسے منصف تلاش کیے جاتے ہیں جو ان کے ہر جائز اور ناجائز مطالبات تسلیم کریں، نظریہ ضرورت بنائیں اور پروان چڑھائیں، آئین کو سبوتاژ کرنے والے آمروں کے اقدامات کو قانون کا جامع عطا کریں، ان کے گلے میں ہار پہنائیں اور انہیں خوش آمدید کہیں کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے، یہ کام تو پہلے ہوجانا چاہیے تھا آپ نے تو مارشل لا دیر سے لگایا ہے'۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'اس کانفرنس کو آئین کی حکمرانی اور ووٹ کے عزت کے تحفظ کے لیے آج ایک جامع لائحمہ تجویز کرنا چاہیے، اگر میثاق جمہوریت کی بنیاد پر کسی نئے میثاق کی تشکیل ضروری ہو تو اس پر غور کیا جانا چاہیے، متوازی حکومت کے بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے، عوام کی رائے پر اپنی رائے مسلط کرنے کا نتیجہ سقوط ڈھاکا کی شکل میں سامنے آیا تھا لیکن اس عظیم سانحے کو بھی بڑی سرد مہری سے فراموش کردیا گیا، میری تجویز ہے کہ یہ کانفرنس حمودالرحمٰن کمیشن کی سفارشات کو عوام کے سامنے لائے'۔

اولین ترجیح سلیکٹڈ حکومت اور نظام سے نجات حاصل کرنا ہے، قائد مسلم لیگ (ن)

انہوں نے کہا کہ 'اس وقت ہماری اولین ترجیح اس غیرنمائندہ، نااہل اور سلیکٹڈ حکومت اور اس سے کئی زیادہ اہم اس نظام سے نجات حاصل کرنا ہے، عمران خان ہمارا اس طرح کا ہدف نہیں ہے، ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے، ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے اور ان کے خلاف ہے جنہوں نے الیکشن چوری کرکے نااہل بندے کو اس جگہ لاکر بٹھایا اور ملک کو برباد کردیا'۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ ملک ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے، یہ تبدیلی عمل میں نہ آئی تو یہ نااہل اور ظالمانہ نظام ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دے گا، ہمیں ملک کے دشمنوں کے عزائم بھی نہیں بھولنے چاہیے، ہماری قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی معیشت کے ساتھ ساتھ اپنی مسلح افواج کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں، ہم نے اس کام میں ماضی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آئندہ بھی ہماری یہی ترجیح رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارے دفاع کی مضبوطی اور قومی سلامتی کے لیے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہماری مسلح افواج آئین پاکستان، اپنے دستوری حلف اور قائد اعظم تلقین کے مطابق خود کو سیاست سے دور رکھیں اور عوام کے حق حکمرانی میں مداخلت نہ کریں، کسی کے کہنے پر وزیراعظم ہاؤس کے دروازے پھلانگ کر اس میں داخل ہوکر بندوق کی نوک پر وزیراعظم کو گرفتار نہ کریں'۔

نواز شریف کے مطابق ہم نے اپنے ملک کو اپنے اور دنیا کی نظروں میں تماشہ بنا دیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے یقین دلایا کہ اے پی سی جو بھی لائحہ عمل ترتیب دے گی مسلم لیگ (ن) اس کا بھرپور ساتھ دے گی اور پیچھے نہیں ہٹے گی۔

تاہم انہوں نے زور دیا کہ اے پی سی اپنی روایت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات تجویز کرے۔

ہم اس حکومت کو نکال کر جمہوریت بحال کرکے رہیں گے، اصف علی زرداری

نواز شریف کے علاوہ سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی بذریعہ ویڈیو لنک ابندائیہ خطاب کیا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک اپنے خطاب میں سب سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بلاول کی دعوت پر اے پی سی میں شرکت کی، ساتھ ہی انہوں نے سابق وزیراعظم کی صحت کے لیے بھی دعا کی۔

سابق صدر آصف زرداری—فوٹو: ڈان نیوز
سابق صدر آصف زرداری—فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ میری نظر میں یہ اے پی سی بہت پہلے ہونی چاہیے تھی، انہوں نے اگر مجھے جیلوں میں نہ بھیجا ہوتا تو شاید میں پہلے آجاتا، مولانا کا کام ہی یہی ہے کہ کسی کو آسرا دے کر کہنا کہ چل میں آرہا۔

آصف زرداری کا کہنا تھا کہ اے پی سی کے خلاف حکومت جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے وہی آپ کی کامیابی ہے، یہ کیا ہے کہ نواز شریف کو براہ راست نہیں دکھا سکتے لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کو دکھا سکتے ہیں، میرا انٹرویو پارلیمنٹ سے بند کیا جاسکتا ہے لیکن وہ آمر جو بھاگا ہوا ہے اس کا انٹرویو دکھانا ان کے لیے ناپاک نہیں ہے۔

دوران خطاب سابق صدر کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ہم جمہوریت پر یقین رکھنے والے سب ناکام ہیں، ہمیں پیمرا کی ضرورت نہیں ہے، لوگوں کو پتا ہے وہ ہمیں سن رہے ہیں اور سنتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جب سے ہم سیاست میں ہیں ہم نے کبھی اتنی پابندیاں نہیں دیکھیں، ایک چینل کے سی ای او کو جیل میں ڈالا ہوا ہے جبکہ ایک چینل کو لاہور سے بند کیا ہوا ہے، یہ سب حکومت کی کمزوریاں ہیں، آج کل کی میڈیا کو بند کرنا یا رکھنا تقریباً نامکمل ہے کیونکہ آج کل ہر کوئی انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔

اس موقع پر مریم نواز کو قوم کی بیٹی کہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں انہوں نے کتنی تکلیف سہی ہوگی کیونکہ میری بہن اور بیوی نے بھی یہ سب کچھ دیکھا تھا، تاہم ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے مقصد کے لیے لڑتے رہیں گے۔

آصف زرداری کا کہنا تھا کہ یہ ہماری کوئی پہلی آل پارٹیز کانفرنس نہیں ہے، اس سے قبل بینظیر بھٹو نے سعودی عرب جا کر نواز شریف کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کیا تھا جس سے ہم نے ایک ہم آہنگی بنائی تھی اور مشرف کو گھر بھیجا تھا جبکہ 18ویں ترمیم بھی پاس کی تھی۔

18ویں ترمیم کو پاکستان کے آئین کے گرد ایک دیوار کہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افسوس ناسمجھ لوگ، سیاسی بونے، جنہیں سیاست کا پتا نہیں ہے، سلیکٹڈ وزیراعظم کی سوچ سمجھیں ایک میجر کی سوچ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ 1973 سے ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان، مولانا مودودی اور اس زمانے کے لیڈروں سے زیادہ ہوشیار ہیں جبکہ ان سب نے مل کر 1973 کا آئین بنایا تھا اور ہم نے انہیں کہ نقش قدم پر چل کر 18ویں ترمیم بنائی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے اس 'اے پی سی کے بعد پہلا بندہ میں ہی جیل میں ہوں گا لیکن مولانا فضل الرحمٰن سے درخواست ہے کہ آپ ملنے آئیے گا، اس ملاقات کا مجھے انتظار رہے گا'۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول پہلا چیئرمین تھا جس نے پہلے دن کہا کہ یہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہے، ہم نے پہلے دن سے چاہا کہ جمہوریت بچے لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ حکومت کا جمہوری اداروں کو بحال کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری اے پی سی کے دوستوں کو ہدایت اور گزارش ہوگی کہ وہ ایسا لائحہ عمل طے کریں جس سے ہم جمہوریت کو مضبوط کرسکیں اور اسے آگے بڑھا سکیں کیونکہ پہلی بنیاد ہی جمہوریت ہے۔

تاہم حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ (حکومت) سمجھی ہے کہ اوپر سے آکر ہم نے جمہوریت کرلی، یہ کوئی جمہوریت نہیں ہے، اس طرح ملک نہیں چلتے، ہم بلوچوں کے کاز کے لیے بھی آواز بلند کرتے ہیں جبکہ ہم پنجاب خاص طور پر جنوبی پنجاب کے ساتھ ہیں، ہم پورے پاکستان کے ساتھ حکومت شیئر کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں کیونکہ میں نے ہمیشہ اپنے دوستوں کو زیادہ ترجیح دی ہے، دوستوں کا جمہوریت کے لیے مشورہ دینا قبول ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم صرف حکومت گرانے نہیں آئے بلکہ ہم اس حکومت کو نکال کر جمہوریت بحال کرکے رہیں گے، ہم نے پاکستان بچانا ہے، ہم نے اس آفت اور بہروپیوں سے پاکستان کو بچانا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا پڑے گا، بلاول بھٹو زرداری

علاوہ ازیں بلاول بھٹو زرداری جو اس کانفرنس کے میزبان بھی ہیں انہوں نے خطاب میں کہا کہ جب جمہوریت نہیں ہوتی تو معاشرے کو ہر طرف سے کمزور کیا جاتا ہے اور ہماری کوشش تھی کہ بجٹ سے پہلے اے پی سی کروائیں۔

اے پی سی سے خطاب میں انہوں نے کہا دو سال میں ہمارے معاشرے اور معیشت کو بہت نقصان پہنچا اور جرائم میں اضافہ ہوا۔

بلاول بھٹو زرداری—فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو زرداری—فوٹو: ڈان نیوز

بلاول بھٹو زرداری نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ جب ملک میں لوگوں کو احتجاج کرنے، میڈیا پر اپنا بیانیہ پیش کرنے اور متنخب نمائندوں کو اسمبلی میں کچھ بولنے کی اجازت نہ ہو تو وہ معاشرہ کیسے ترقی کرسکتا ہے۔

پی پی پی کے شریک چیئرمین نے کہا کہ 'یہ جو قوتیں اور اسٹیبشلمنٹ ہیں جنہوں نے عوام سے جمہوریت چھینی ہے، کٹھ پتلی نظام مسلط کیا ہے انہیں سمجھنا پڑے گا'۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے سامنے عوام کا مطالبہ پیش کرنے پڑے گا، 'ہمیں ان کے سامنے مطالبہ پیش کرنا پڑے گا کہ ہمیں، اس ملک کو اور اس ملک کے عوام کو آزادی دیں'۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'آپ کو ہمیں انتخابات میں یکساں اہمیت دینی پڑے گی'۔

انہوں نے کہا کہ 'اپوزیشن کو عدالت، میڈیا، پارلیمنٹ میں یکساں مواقع ملنے چاہیے، یہ بیھٹے تمام رہنماؤں سے درخواست ہے کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر نئی نسل کے لیے حقیقی جمہوریت کا مطالبہ کریں'۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'ہمیں ایم آر ڈی تحریک کی طرح اتحاد اور یقین کے ساتھ ایک اور الائنس بنانا پڑے گا جس کا منشور ایک میثاق جمہوریت ہو، اس کو منشور بنا کر نکلنا پڑے گا'۔

انہوں نے تمام بڑے شہروں کا نام لیتے ہوئے تقاضہ کیا کہ دیہاتوں سے بھی سب اس مقصد کی تکمیل کے لیے نکلنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے ایوان کو آزاد نہیں کراسکے تو عوام کے دلوں میں اپنا مؤقف کا کیا یقین دلاسکیں گے۔

ملک میں جمہوریت صرف نام کی ہے، شہباز شریف

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں جمہوریت صرف نام کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2018 میں سلیکٹڈ حکومت آئی، ان انتخابات میں آر ٹی ایس کیسے بند ہوا؟ اس کی تحقیقات کے لیے ان ہاؤس کمیٹی بھی بنائی گئی لیکن کچھ نہیں ہوا۔

شہباز شریف—فوٹو: ڈان نیوز
شہباز شریف—فوٹو: ڈان نیوز

شہباز شریف نے کہا کہ 2014 میں منتخب حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا جبکہ کورونا سے قبل ہی پاکستان کی معیشت کو ضرب لگ چکی تھی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ مرجائیں گے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں مختلف ادوار میں حادثات ہوئے اور منتخب حکومت کو ڈی ریل کیا گیا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں جمہوریت صرف نام کی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ الیکشن کے بعد پارلیمنٹ میں وزیراعظم عمران خان نے انتخابات میں دھندلی کے بے نقاب کرنے کے لیے ہاؤس کی کمیٹی بنائی گئی لیکن آج تک اس کمیٹی نے ایک انچ بھی کام نہیں کیا، اس سے بڑا جھوٹ اور یو ٹرن اور کیا ہوسکتا ہے؟

شہباز شریف نے کہا کہ کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی لیکن وزیراعظم عمران خان کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں اور لوگوں کی ہمت باندھیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ 'موجودہ حکومت کی جانب سے قرضے لینے کے باوجود مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی، ڈالر کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے' جبکہ کووڈ 19 آنے سے پہلے پاکستانی معیشت تباہ ہوگئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق کہا کہ پہلے چینی برآمدات کرکے قمتیں بڑھائی گئیں اور اب درآمدات کی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ چینی کے اسکینڈل میں نیب اور ایف آئی اے کہیں نظر آرہی کیونکہ دونوں ادارے صرف اپوزیشن کے خلاف فعال ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وچ ہنڈنگ کے ساتھ اب میڈیا ہنڈنگ بھی ہورہی ہے، میڈیا کے ساتھ جو سلوک ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

شہباز شریف نے کہا کہ 'پوری قوم کی نظریں اے پی سی پر ہیں کہ ہم کیا فیصلے کرتے ہیں'۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ اداروں کی جانب سے غیرمشروط اور غیرمعمولی تعاون کے باوجود حکومت ناکام رہی، حکومت نے عوامی فلاح کے کون سے منصوبے بنائے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ اگر اب بھی حکومت نے احتساب نہیں کیا تو یقین کریں کہ خاموشی جرم بن جائے گی اور ہم جرم کا حصہ بن جائیں گے، موجودہ حکومت نے چین کے خلاف بیانات دیے جس نے ہر مشکل میں ہماری مدد کی۔

فیصلہ کریں اسمبلیوں سے مستعفی ہوں گے، فضل الرحمٰن

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

بعد ازاں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمارے ملک کا جمہوری نظام بالکل تباہ ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کمیٹی بنائی گئی جس کی توثیق آپ لوگوں نے کی لیکن میں نے پہلے دن سے اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔

اگر آپ نے ڈھیلے ڈھالے فیصلے کیے تو مارچ میں سینیٹ انتخابات کی صورت میں ان جعلی لوگوں (حکومت) کے ہاتھ میں سینیٹ کا ایک حصہ چلا جائے گا، پھر آپ کہاں کھڑے ہوں گے اور ملک کہاں کھڑا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ہم بڑی صراحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہیں کہ آج ہی فیصلہ کریں کہ ہم اسمبلیوں سے مستعفی ہوں گے، اگر انہی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جہاں کوئی کارکردگی نہیں ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم شفاف الیکشن کے مقصد کے لیے کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر ہم نے سول سپریمیسی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہیں تو پھر آپ عوام کے صفوں کے جانے کے لیے آئیں، تاجربرادری، وکلا، اساتذہ، ڈاکٹروں، مزدوروں، کسانوں اورصںعت کاروں کے پاس جائیں اور ان کے سے کہیں ہم اکٹھیں لڑیں اور ہمیں قوت سے ان کو اپنی صفوں میں لانا ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کے بارے میں نواز شریف کے خیالات سے مفتق ہوں، جب 18 ویں ترمیم کے لیے آئینی اصلاحاتی کمیٹی بنائی گئی تھی تو ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ ایک آمر جنرل پرویز مشرف کا بنایا ہوا ادارہ ہے، یہ ہمیشہ جمہوریت اور سیاست دانوں کے خلاف استعمال ہوگا اس لیے اس کو نکال دیں لیکن کس مصلحت کے لیے برقرار رکھا گیا آج تک پتہ نہیں چلا۔

انہوں نے کہا کہ 'آج اپنے پورے نظآم کو دیکھیں، اسمبلی جعلی، وزیراعظم جعلی، سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعمتاد ہوا اور جو کچھ ہوا میری زبان میں آج چیئرمین سینیٹ جعلی، پرسوں اقلیت کو اکثریت کہا گیا شاید وہاں کے ملازمین کو بھی گنا ہوگا'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'اس گنتی پر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ غلط ہوئی ہے، پارلیمنٹ کی اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت بنا کر بل منظور کرلیا، اب تو مجھے اسمبلی کا اسپیکر بھی جعلی لگتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب پوری پارلیمنٹ جعلی ہوجائے، حکمران جعلی ہوں تو پھر ہم وہاں کس لیے بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب ڈرامے وہاں ہوئے ہیں'۔

'اپنی عیاشیوں کے لیے غلامی قبول کرنا کوئی زندگی نہیں'

پارلیمنٹ میں قانون سازی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ایف اے ٹی ایف سے متعلق جو قانون سازی ہورہی ہے یہاں رکے گی نہیں، آپ کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف بھی قرار داد آئے گی اور ایک دن اس پر دباؤ آئے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اب پھنس چکے ہیں، اس سے نکلنے کے لیے مضبوط فیصلے کرنے ہوں گے، ڈی نیوکلیئرائزیشن کا آپ انتظار کریں گے، اپنی عیاشیوں کو زندہ رکھنے کے لیے غلام بننا کوئی زندگی نہیں ہے'۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ 'پاکستان ہمارے لیے اول ہے، اس کی باعزت بقا ہمارے لیے اول ہے اور آئین کے مطابق ہمارا نظام چلنا چاہیے، کبھی صدارتی نظام کے لیے تجویز آتی ہے جبکہ ہم نے آئینی اصلاحاتی کمیٹی میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کاتعین کیا جائے'۔

آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق آئینی کمیٹی پر ہونے والے اتفاق پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق 4 چیزوں پراتفاق ہوا تھا اسلام، جمہوریت، وفاقی طرز حکومت اورپارلیمانی نظام پر، آئین کا ایک ستون بھی گرجاتا ہے آئین گرتا ہے پھر ایک آئین ساز اسمبلی کے تحت آئین دینا ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ '70 برسوں سے جو چیزین طے شدہ ہیں وہ دوبارہ کھل جائیں کیا ہم اس کا متحمل ہیں، اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا'۔

'میڈیا کی آزاد کے لیے مضبوط مؤقف لینا چاہیے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'میڈیا کو اتنا کمزور اور مقید کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے لاکھوں کے اجتماع اور ہماری تقاریر کو چینلوں میں دکھانے کے قابل نہیں رہے، ان کو باقاعدہ روکا جاتا ہے اور وہ رک جاتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں میڈیا سے شکوہ اپنی جگہ پر لیکن ہمیں ان کی مظلومیت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے اور ان کی آزادی کے لیے بھی ایک مضبوط مؤقف لینا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پاکستان بڑی ہمت کے ساتھ میگا پروجیکٹس کی طرف جارہا تھا، سی پیک، توانائی سمیت اور دیگر منصوبوں کی طرف جارہا تھا لیکن آج سب کچھ رک گیا ہے'۔

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ایک غیرملکی سفیر نے بتایا کہ پاکستان اور پاکستانی قوم میگا پروجیکٹس کی متحمل نہیں ہے لہٰذا ہمیں مائیکرو اورمیڈیم سطح پر اکثر نو منصوبے شروع کریں گے، پھر انڈے اور کٹے ریاست کی پالیسیاں ہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن کی پیپلزپارٹی سے احتجاج

اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میری تقریر نشر نہیں کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت تو ہماری آواز کو عوام تک جانے سے روکتی ہے لیکن آج اے پی سی نے بھی ہماری تقریر کو باہر جانے سے روک دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ہم پیپلزپارٹی اور اس کے منتطمین سے احتجاج نوٹ کروانا چاہتے ہیں'۔

بلاول بھٹو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دونوں کیمرے لائیو دکھا رہے ہیں، مولانا کی تقریر سوشل میڈیا پر براہ راست دکھائی جارہی ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا پر نہیں تھی۔

'گفتگو پر اکتفا نہیں کرسکتے، آپ بہت پیچھے ہٹے ہیں'

انہوں نے کہا کہ 'ہم زبانی گفتگو پر اکتفا نہیں کرسکتے کہ آپ ہمیں کہیں کہ ہم لڑیں گے اورپیچھے نہیں ہٹیں گے، آپ بہت پیچھے ہٹے ہیں، ان دو برسوں میں آپ ان کی بقا کا سبب بنے ہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'اب باقاعدہ لکھ کر طے کرنا ہوگا تاکہ ہم عوام کو دکھا سکیں اورجو اس سے پیچھے ہٹتا ہے تو اس کو قومی مجرم تصور کیا جائے گا، اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اورپھر کمپرومائز کی طرف جاتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں عملی اقدامات کی طرف جانا ہوگا، کمپرومائز کا راستہ بند ہوگا، آپ ہماری سیاسی تحریک کو مہمیز تو بخشتے ہیں لیکن جب آگے بڑھتے ہیں تو مصلحتیں سامنے آتی ہیں اور اپوزیشن کی جماعتوں سے بھی یہ برقرار رہتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کرکے کوئی تحریک چلاسکیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اعتماد کےلیے بھی ہمیں مؤثر باتیں کرنی ہوں گی اور اس تجدید عہد کرنا ہوگا، ہمیں حلف اٹھا کر یہاں سے نکلنا ہوگا، تحریری میثاق یہاں لکھنی ہوگی، اگر ہم چاہتے ہیں تو ہمارا ایک تنظیمی ڈھانچہ اوراپوزیشن کا ایک نام ہونا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تمام قانون سازی، غیر منتخب اور غیرآئینی حکومت کے تمام بین الاقوامی معاہدوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی ہورہی ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ پیسہ دہشت گردوں کے پاس جاتا ہے تو میرے خیال میں اس پیسے کا بھی راستہ بند ہونا چاہیے جو ریاستی دہشت گردی کے حق میں چلاجاتا ہے'۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ 'اگر آپ مضبوط فیصلہ کر اسمبلیوں سے استعفے دینے، سندھ کی صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور ایک بھرپور سیاسی تحریک جس میں پارلیمنٹ میں قانون سازی سے اظہار لاتعلق ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہمیں بہتر توقعات ہیں اور امید ہے آپ پوری قوم کی حوصلہ افزائی کریں گے'۔

اس کانفرنس میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، نیر بخاری، نوید قمر،شیری رحمٰن، فرحت اللہ بابر، نفیسہ شاہ و دیگر بھی موجود تھے۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے وفد نے پارٹی صدر شہباز شریف کی قیادت میں آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی، وفد میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز، خواجہ آصف، احسن اقبال، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، امیر مقام اور مریم اورنگزیب شامل ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین و رہنما بھی اس آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں