اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر سے صحافی گرفتار

اپ ڈیٹ 23 ستمبر 2020
— فائل فوٹو: کریٹو کامنز
— فائل فوٹو: کریٹو کامنز

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے عدالت میں مریم نواز کی درخواست پر ہونے والی سماعت کی کوریج کے لیے آئے صحافی کو گرفتار کرلیا۔

مریم نواز کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت ہوئی تھی، جہاں چینل 24 سے وابستہ صحافی احتشام کیانی کو پولیس نے گرفتار کرکے رامنا تھانے منتقل کردیا۔

مزید پڑھیں: 'پاک فوج کی تضحیک' کا الزام، انگریزی اخبار کے سینئر صحافی گرفتار

انہیں عدالت کے باہر قائم چیک پوسٹ پر اپنی شناخت کرانے کے باوجود گرفتار کیا گیا، صحافی کی گرفتاری کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس سے ہتھیار برآمد کیا گیا تھا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کے اعلیٰ حکام کو طلب کرلیا جبکہ صحافی کی فوری رہائی کا حکم بھی دیا۔

جس کے بعد پولیس نے صحافی کو رہا کردیا اور اس حوالے سے سپرنٹنڈنٹ پولیس سرفراز وریک نے بتایا کہ صحافی کے پاس سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا تھا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ نجی چینل پر اس حوالے سے چلنے والی خبر غلط تھی۔

رہائی کے بعد احتشام کیانی نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں اسلحہ رکھنے کے چھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں پولیس نے ڈیرھ گھنٹے تک حراست میں رکھا، اور اس دوران انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ہراساں بھی کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایس پی زوبیر شیخ نے ان کے ساتھ برا برتاؤ کیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے ان کا پرس اور موبائل فون ان سے لے لیا تھا، علاوہ ازیں متعدد کوششوں کے باوجود انہیں ان کے اہل خانہ اور دفتر کے ساتھیوں سے رابطے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی اسد طور کے خلاف فوج مخالف 'منفی پروپیگنڈا' کرنے پر ایف آئی آر درج

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے صحافی کی گرفتاری کی مذمت کی اور واقعے کو شرمناک، قابل مذمت اور افسوسناک قرار دیا۔

عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا کو ان کے پیشہ وارانہ فرائض سے روکنا غیر آئینی اور آزادی صحافت کے خلاف ہے۔

ترجمان مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت کی آمرانہ سوچ آئین، قانون، جمہوریت اور عوام کی آزادی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال ہورہی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ میڈیا پر تشدد میں ملوث ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں صحافیوں کے خلاف مقدمات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کچھ صحافیوں کے خلاف غداری و فوج کے خلاف منفی پروپیگینڈا کرنے کے الزام میں مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔

15 ستمبر کو اسلام آباد میں مقیم صحافی اسد طور نے ایف آئی آر کی ایک کاپی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کی تھی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر 'ریاست، پاکستانی اداروں اور پاک فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا' پر مبنی مواد شیئر کیا تھا۔

راولپنڈی کے رہائشی حافظ احتشام احمد کی ایک شکایت پر اسد طور کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

اس سے قبل اسی طرح کی ایف آئی آر جہلم میں صحافی اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم کے خلاف بھی درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر چوہدری نوید احمد کی شکایت پر درج کی گئی تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ابصار عالم نے وزیر اعظم عمران خان اور پاک فوج کے خلاف ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر 'انتہائی نازیبا' زبان استعمال کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ 'غداری' کے مترادف ہے۔

اس سے قبل کراچی میں پولیس نے سوشل میڈیا پر 'قابل اعتراض' مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون سے وابستہ صحافی بلال فاروقی کو گرفتار کرلیا تھا۔

ایک شہری جاوید خان کی شکایت پر بلال فاروقی کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 500 اور 505 اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی دفعہ 11 اور 12 کے تحت ایف آئی درج کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں