منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کی ضمانت میں 28 ستمبر تک توسیع

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2020
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف-- فائل فوٹو: اے ایف پی
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف-- فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں پیر (28 ستمبر) تک توسیع کردی، ساتھ ہی آئندہ سماعت پر وکلا کو دلائل مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

صوبائی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی، دوران سماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر کی طرف سے ان کے وکلا امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے فیصل بخاری اور عثمان راشد چیمہ دلائل کے لیے موجود تھے۔

دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ مشیر داخلہ مرزا شہزاد اکبر نے پھر پریس کانفرنس کی اور کہا کہ شہباز شریف منی لانڈرنگ کا نیٹ ورک چلاتے ہیں، شہزاد اکبر ڈھٹائی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ معاملے میں ریفرنس دائر ہوچکا ہے، شہباز شریف کی گرفتاری کی ضرورت نہیں ہے تاہم وزرا کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کیس کو مثال بنائیں گے، وہ کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف آج یا کل جیل جائیں گے، عدالت وزرا کے ان بیانات کا نوٹس لے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت آمدن سے زائد اثاثوں کے معاملے پر پہلے ہی شہباز شریف کا ریمانڈ دینے سے انکار کرچکی ہے، ساتھ ہی ان کا یہ مؤقف تھا کہ نیب نے بدنیتی پر مبنی منی لانڈرنگ کا کیس بنایا ہے اور ایک ہی معاملے پر بار بار گرفتاری قانون کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: میرے فیصلوں کی وجہ سے خاندانی کاروبار کو نقصان پہنچا، شہباز شریف

انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو نے شہباز شریف کو جون میں طلب کیا تھا لیکن ان کے وارنٹ گرفتاری مئی میں ہی جاری کردیے گئے تھے جبکہ مواد کے بغیر کیسے شہباز شریف کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

شہباز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب نے ان کے مؤکل کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے قبل قانونی تقاضے پورے نہیں کیے، شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف (اپوزیشن لیڈر) ہیں۔

ان کے وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب نے بدنیتی کی بنیاد پر ہی شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کرایا تاہم لاہور ہائیکورٹ نے بدنیتی کو بھانپتے ہوئے شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا، شہباز شریف علاج کے لیے بیرون ملک گئے اور خود واپس آئے۔

اس موقع پر عدالت میں موجود مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے بولنے کی اجازت مانگی اور کہا کہ میں نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ آخری پرواز پاکستان جارہی ہے، میرے دوست نے کہا کہ ٹکٹ مل جائے گی، جس پر میں نے دوست کو کہا کہ ٹکٹ کا معاملہ خفیہ رکھنا یہ نہ ہو کہ حکومت پرواز ہی معطل کردے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں خود کو حکام کے سامنے سرنڈر کرنے کے لیے پاکستان آیا تھا۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے صدر کی بات کے ساتھ ہی ان کے وکیل امجد پرویز بٹ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف 2018 سے نیب کے کیسز بھگت رہے ہیں، اگر عبوری ضمانت کا ریلیف غلط ملے تو اس کی درستی ٹرائل مکمل ہونے کے بعد سزا کی صورت میں ہو جاتی ہے لیکن اگر ضمانت خارج ہو اور حراست میں لیے لیا جائے اور بعد میں بریت ہو تو اس کا تدارک نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اس وقت اپوزیشن لیڈر ہیں، آواز کو دبانے کے لیے دنیا کی تاریخ غداری کے مقدمات سے بھری پڑی ہے، شہباز شریف نے آج تک کوئی ریکارڈ ادھر سے اُدھر نہیں کیا، وہ پہلے ہی تمام ریکارڈ نیب کو فراہم کرچکے ہیں۔

شہباز شریف کے وکیل کی بات مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کی سماعت میں 30 منٹ کا وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہو جاتا ملزم بے گناہ ہے اور ان کے مؤکل شہباز شریف ٹرائل جوائن کر چکے ہیں لہٰذا اس اسٹیج پر ان کی گرفتاری نہیں بنتی، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو جرم کے بغیر جیل میں رکھنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اگر شہباز شریف کو ضمانت ملتی ہے تو نیب کے کیس کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو ریفرنس کی کاپی بھی مل چکی ہے۔

دوران سماعت شہباز شریف کے دوسرے وکیل اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ نیب کا ادارہ سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہورہا ہے، شہباز شریف 30 سال سے زائد عرصے سے سیاست میں ہیں جبکہ اس وقت ان کے پاس ایک آئینی عہدہ ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ نیب نے شہباز شریف کو جتنے نوٹسز جاری کیے ان کے تحریری جواب بھی دیے گئے، شہباز شریف تعاون بھی کر رہے ہیں، انویسٹی گیشن رپورٹ اور ریفرنس بھی مکمل ہے پھر گرفتاری کا کوئی جواز نہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر کے وکیل کا کہنا تھا کہ چہہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات جیتنے کے لیے شہباز شریف کو جیل بھیجا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتیں شہباز شریف سے ملتے جلتے کیسز میں ضمانت منظور کر چکی ہیں، ساتھ ہی دلائل میں انہوں نے یہ کہا کہ جب ریفرنس فائل ہو چکا ہے تو اس اسٹیج پر ہمیں کیس کے میرٹس پر بات نہیں کرنی چاہیے۔

وکیل کی اس بات پر جسٹس سردار احمد نعیم کا کہنا تھا کہ آپ کی مرضی ہے کہ کریں یا نہ کریں، جس پر ایک مرتبہ پھر شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

شہباز شریف نے کہا کہ میرے اوپر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ غلط اور بے بنیاد ہیں، نیب نے کہا کہ یہ بے نامی اثاثے میرے ہیں، مجھ پر بہت بھاری الزامات لگائے گئے، کہا گیا کہ میرے بچوں کے اثاثہ جات میرے ہیں، بطور وزیر اعلیٰ کرپشن کی یہ الزامات ہیں۔

اس پر عدالت نے کہا کہ یہ درخواست آپ کی مرضی سے دائر ہوئی، اگر کوئی بات رہ جائے تو آپ دلائل مکمل ہونے پر کر لیں، جس پر شہباز شریف نے کہا کہ میں کچھ دستاویزات عدالت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کے وکیل اگر کچھ عدالت میں پیش نہ کر سکیں تو وہ آپ کر دیں۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف اور اہلخانہ کے خلاف منی لانڈرنگ کا ریفرنس دائر

بعد ازاں وکیل امجد پرویز نے کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں کسی وعدہ معاف گواہ نے شہباز شریف کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، نیب کے مطابق شریف گروپ کا چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) اکاؤنٹس کے سارے معاملات دیکھتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سی ایف او محمد عثمان کی ریمانڈ کی درخواست میں بھی شہباز شریف کے بارے میں ایک لفظ نہیں ہے، نیب کے منی لانڈرنگ ریفرنس میں شہباز شریف کے اختیارات سے تجاوز کے بارے میں بھی ایک لفظ موجود نہیں جبکہ نیب 56 کمپنیوں کے کیس میں بھی ایک ریفرنس عدالت میں دائر نہیں کرسکا۔

اس موقع پر شہباز شریف کے وکیل نے مریم نواز کی ضمانت سے متعلق بھی عدالت کے سامنے حوالے پیش کیے۔

ساتھ ہی شہباز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت کا وقت ختم ہو رہا ہے، اس کیس کو ملتوی کردیا جائے، اگلی سماعت پر دلائل مکمل کردیں گے۔

اس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ کو دلائل مکمل کرنے کے لیے کتنا وقت چاہیے، جس پر وکیل نے کہا کہ جلد مکمل کرلیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے وکیل کی بات کے بعد شہباز شریف کی ضمانت میں پیر (28 ستمبر) تک توسیع کردی اور وکلا کو اس روز تک دلائل مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں کئی مرتبہ توسیع کی ہے اور گزشتہ توسیع 24 ستمبر تک کی گئی تھی، جس میں آج مزید 4 دن کی توسیع کردی گئی۔

منی لانڈرنگ ریفرنس

خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثہ جات: شہباز شریف، اہلِخانہ آئندہ سماعت پر طلب

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

اس معاملے میں لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کررکھی ہے جبکہ اسی معاملے میں گزشتہ دنوں لاہور کی احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اور بیٹی رابعہ عمران کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں