اسٹریمنگ ویب سائٹ 'نیٹ فلیکس' نے امریکا کے 5 ری پبلکن سینیٹرز کی چینی سائنس فکشن کتاب اور اس کے سیکوئیل کو ٹی وی سیریز میں تبدیل کرنے سے متعلق خط پر جواب دیا ہے۔

خیال رہے کہ امریکی سینیٹرز نے نیٹ فلیکس کو سیریز پر نظر ثانی پر زور دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا کہ مصنف نے کتاب میں چینی حکومت کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا دفاع کیا ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں نیٹ فلیکس نے ان کتابوں کو لائیو ایکشن میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا، اس انگلش ٹی وی سیریز کی قیادت ایچ بی او کی میگا ہٹ سیریز ' گیم آف تھرونز' کے تخلیق کار ڈی بی ویس اور ڈیوڈ بینیوف کررہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی مصنف لیو سکسن مذکورہ پروجیکٹ کے کنسلٹنگ پروڈیوسر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکی سینیٹرز کا نیٹ فلیکس پر چینی سائنس فکشن سیریز پر نظرثانی پر زور

تاہم اب نیٹ فلیکس نے سینیٹرز کو دیے گئے جواب میں کہا ہے کہ ایغور مسلمانوں کے ساتھ چینی حکومت کے سلوک سے متعلق مصنف لیو سکسن کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے۔

برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق نیٹ فلیکس گلوبل پبلک پالیسی کے نائب صدر ڈین گارفیلڈ نے امریکی سینیٹرز کو ایک خط کی صورت میں جواب دیا۔

انہوں نے لکھا کہ لیو سکسن کتاب کے مصنف ہیں شو بنانے والے نہیں، انہوں نے مزید لکھا کہ ہم ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے۔

ڈین گارفیلڈ نے کہا کہ لیو سکسن کے خیالات کا کتاب یا نیٹ فلیکس کے اس شو سے کوئی تعلق نہیں۔

خیال رہے کہ نیٹ فلیکس کو لکھے گئے خط میں امریکی سینیٹرز نے 2019 میں نیویارکر میگزین کو دیے گئے لیو سیکسن کے بیان کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے سنکیانگ کے علاقے میں ایغور اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ چین کے رویے پر بات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جنگجو لڑکی کی فلم ’مولان‘ پر چین میں تنازع

لیو سکسن نے کہا تھا کہ اگر کچھ بھی ہے تو حکومت ان کی معیشت میں مدد کر رہی ہے اور انہیں غربت سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ امریکا اور انسانی حقوق کے گروہوں کی جانب سے چین میں ایغوروں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر تنقید کی جاتی ہے۔

تاہم چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے بارہا سنکیانگ میں حراستی کیمپوں کی موجودگی کی تردید کی جاتی رہی ہے اور انہیں ووکیشنل اور ایجوکیشنل مراکز قرار دیا گیا ہے۔

وزارت خارجہ کی جانب سے ان الزامات کو چین مخالف قوتوں کی جانب سے سنکیانگ کی پالیسی کے خلاف مذموم سازش قرار دیا جاتا ہے۔

نیٹ فلیکس کو لکھے گئے خط میں مارشا بلیک برن کی قیادت میں سینیٹرز نے کہا کہ کمپنی کی جانب سے لیو سکسن کے کام کو اپنانے کا فیصلہ چینی حکومت کے 'جرائم' کو معمول پر لانے کے برابر ہے۔

مزید پڑھیں: وبا کے باعث چینی جنگجو لڑکی کی ’مولان‘ آن لائن ریلیز

انہوں نے لکھا tha کہ (سنکیانگ) میں اس طرح کے مظالم کے باوجود وہاں صرف پیچیدہ کارپوریٹ فیصلے موجود ہیں۔

سینیٹرز نے نیٹ فلیکس کو سنجیدگی سے لیو سکسن کو یہ پروجیکٹ پروڈیوس کرنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے پر سنجیدگی سے نظرثانی پر زور دیا تھا۔

خیال رہے کہ نیٹ فلیکس کی اسٹریمنگ سروس 190 سے زائد ممالک میں موجود ہے لیکن یہ چین میں آپریٹ نہیں ہوتی۔

تبصرے (0) بند ہیں