امریکا کی ایران کو افغان امن مذاکرات میں شرکت کی دعوت

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2020
ایران نے امریکا-طالبان امن معاہدے کی مذمت کی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز
ایران نے امریکا-طالبان امن معاہدے کی مذمت کی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: امریکا، ایران کو افغان امن مذاکرات میں شرکت کرنے کی دعوت دے چکا ہے اور وسطی ایشیا کو پاکستان سے منسلک کرنے والے انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔

یہ بات امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے واشنگٹن میں رواں ہفتے ہونے والے ایک ویبینار (آن لائن سیمنار) کے دوران کہی۔

انہوں نے کہا کہ افغان امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے پاکستانی قیادت درست پیغامات بھیج رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن مذاکرات میں مدد کے لیے تیار ہیں، ایرانی سفیر

افغان امن عمل میں ایران کے کردار کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ 'ہم نے اس مسئلے پر ایرانیوں کو ملاقات کی دعوت دی تھی'۔

امریکی نمائندہ خصوصی کا مزید کہنا تھا کہ 'انہیں مختلف فورمز میں شامل ہونا چاہیے جہاں ہم اور وہ بھی افغانستان کے مستقبل پر بات چیت کریں'۔

تاہم افغان جنگ کے پر امن خاتمے کی امریکی کوششوں کی سربراہی کرنے والے زلمے خلیل زاد نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ 'ایران کچھ مشکل ہے'۔

مزید پڑھیں: امن مذاکرات کے باوجود افغانستان میں جھڑپیں جاری

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'اتنا افغانستان کی وجہ سے نہیں جتنا ہمارے ایران کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی وجہ سے ہے، ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ایران چاہے گا ہم افغانستان میں شکست یا فتح کے بغیر تنازع میں الجھے رہ کر بھاری قیمت ادا کرتے رہیں جب تک کہ ایران اور امریکا کے مابین سمجھوتہ نہ طے پا جائے'۔

زلمے خلیل زاد نے خبردار کیا کہ اگر ایرانی حمایت یافتہ گروہوں نے افغانستان میں امریکا یا اس کے شریک اتحادیوں کے خلاف کام کیا تو امریکا اس کا جواب دے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'ہم ان کی بہت باریک بینی سے نگرانی کررہے ہیں، کبھی کبھار پریشان کن حرکتیں ہوتی ہیں جن کا منفی اثر پڑتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: دوحہ: افغان حکومت اور طالبان میں امن مذاکرات کا آغاز

یاد رہے کہ ایران نے رواں برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امریکا-طالبان امن معاہدے کی مذمت کی تھی۔

زلمے خلیل زاد نے معاہدے کو حتمی صورت دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا جو آئندہ برس مئی تک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا تصور پیش کرتا ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی نے معاہدے کا سبب بننے والے مذاکرات میں سہولت کاری کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا۔

تاہم ایران نے سمجھوتے کو مسترد کردیا تھا کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ واشنگٹن اسے طالبان کو جائز بنانے کے لیے استعمال کررہا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا، طالبان امن مذاکرات، کب کیا ہوا؟

ایران نے افغان عسکریت پسندوں کے ساتھ اپنے رابطوں کو بھی آگے بڑھایا تھا لیکن امریکا کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ تہران مغربی افواج پر عسکریت پسندوں کے حملوں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔

امریکا نے افغانستان سے کس طرح انخلا کا منصوبہ بنایا ہے کہ جواب میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ 'فوجی لحاظ سے افغانستان میں رہنا خود امریکا کے لیے انجام نہیں ہے'۔


یہ خبر 29 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں