24 ستمبر کی شام کو یہ خبر ملی کہ ڈین مروین جونز، جو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے آغاز سے ہی ایک نمایاں حصہ تھے، وہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث ممبئی میں انتقال کرگئے۔ یہ ایک ایسی خبر تھی جسے سن کر سب کو ہی دھچکا لگا۔

دنیائے کرکٹ کو پہنچنے والے دھچکے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ 59 سالہ سابق آسٹریلوی بلے باز کے بارے میں کبھی نہیں سنا کہ ماضی میں ان کو کوئی سنگین بیماری لاحق رہی ہو۔

ڈین جونز کوبرگ کے مضافاتی علاقے میلبورن میں پیدا ہوئے۔ وہ ہمیشہ آسٹریلوی ٹیم میں بطور ٹاپ آرڈر بلے باز کھیلے۔ ان کے لیے کہا جاتا تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کے لیے امتیازی خدمات انجام دیں لیکن محض 10 سال بعد ان کی اچانک ریٹائرمنٹ پر لوگوں کا ملا جلا ردِعمل سامنے آیا۔

وکٹوریہ کی جانب سے جب انہوں نے فرسٹ کلاس کھیلنا شروع کیا تو محض 3 سال کے عرصے میں انہوں نے دورہ ویسٹ انڈیز کے لیے خود کو اہل ثابت کیا، ایک ایسے وقت میں جب میزبان ٹیم کا راج ہوا کرتا تھا۔

ہمیشہ قابلِ اعتبار سمجھے جانے والے ایلن بارڈر، جنہوں نے بعد میں آسٹریلوی ٹیم کی قیادت سنبھالی اور جونز بھی انہی کی قیادت میں کھیلے، وہ اس دورے میں واحد چمکنے والا ستارہ تھے۔

جیسے ہی جونز جنہیں ٹیم کے کھلاڑی ڈینو پکارتے تھے، کی آمد ہوئی تو آسٹریلوی ٹیم کی قسمت بدل گئی۔ جب عالمی کرکٹ میں ویسٹ انڈیز کا راج تھا اور ان کے تیز باؤلرز مخالفین کے لیے شرمندگی اور انجریز کا سبب بن رہے تھے، اس وقت ایل بارڈر کو ڈین جونز جیسے ہی کھلاڑی کی ضرورت تھی۔

اگر ایک روزہ کرکٹ کی بات کریں تو وہاں پہلے ہی کیری پیکر کے رنگین لباس اور وائٹ بال کے شوق نے انقلاب برپا کردیا تھا اور یوں رات میں کھیلی جانے والی کرکٹ نے بتدریج مداحوں کو متاثر کرنا شروع کردیا۔

مزید پڑھیے: ڈین جونز، پہلی یاد سے آخری یاد تک!

جونز کو بعد میں ’پروفیسر ڈینو‘ کا نام دیا گیا۔ انہیں یہ نام 90 کی دہائی میں کھیل کو الوداع کہنے کے بعد کوچ کی حیثیت سے اپنے کردار اور بطور براڈکاسٹر شائستہ الفاظ ادا کرنے اور ان کی ذہانت کی وجہ سے دیا گیا تھا۔

لیکن اس سے بہت پہلے وہ 50 اوورز کے کھیل میں تبدیلی لانے والے کی حیثیت سے شناخت رکھنے لگے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب بہت ہی کم ایسے بیٹمسین ہوتے تھے جو تیز گیند بازوں کو کھل کر کھیلا کرتے تھے، اور جونز انہی میں سے ایک تھے۔ انہوں نے بغیر کسی خوف کے باؤلرز کا سامنا کیا اور بڑے شاٹس لگائے، اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ان کی یہ صلاحیت زیادہ نظر آنے لگی۔

جب آسٹریلیا 1987ء میں انگلینڈ سے باہر منعقد ہونے والے پہلے ورلڈ کپ میں بھارتی سرزمین پر ورلڈ کپ فاتح کی صورت میں سامنے آیا تو یہ اتنا ہی حیران کن تھا جتنا ٹھیک 4 سال پہلے یعنی جون 1983 میں بھارت کا ویسٹ انڈیز کو ہرا کر ورلڈ کپ چیمپئن بننا تھا۔ اس آسٹریلوی فتح میں اہم ترین کردار ڈین جونز کا ہی تھا جنہوں نے مستقبل کے لیے جیت کی راہ ہموار کی۔

اس کھیل میں جونز کی سب سے اہم اور نمایاں خوبی وکٹ کے درمیان تیز رنز لینا اور باؤنڈری لائن پر زبردست فیلڈنگ کرنا تھا۔ جونز اور اسٹیو وا کے درمیان ایک ایسی زبردست جوڑی بن گئی، کیونکہ یہ دونوں ہی تیز رنز بنانے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ بعض اوقات تو یہ ایسے رنز بھی لے لیتے تھے جب اس کا تصور بھی نہیں ہوتا تھا اور یوں مخالف ٹیم کے کھلاڑی چکرا کر رہ جاتے تھے۔ ان دونوں میں یہ صلاحیت تھی کہ آدھے رن کو ایک اور ایک 2 رنز میں بدل سکیں۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جونز عام صلاحیت کے حامل کھلاڑی نہیں تھے۔ 50 اوورز کی کرکٹ کے مزاج میں تبدیلی لانے کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے، اور اگر وہ ٹی20 کرکٹ بھی کھیل رہے ہوتے تو یقینی طور پر اس مختصر فارمیٹ میں بھی وہ کچھ نیا ضرور کرتے، بالکل اپنی صلاحیتوں کے عین مطابق۔

1986ء میں مدراس (چنائی) کے چیپک اسٹیڈیم میں کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ ڈین جونز کی زبردست ہمت اور شاندار حوصلے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ یہ کرکٹ کی تاریخ میں محض دوسرا ٹیسٹ میچ تھا جو 42 ڈگری درجہ حرارت میں کھیلا گیا۔ 2 دن مسلسل بیٹنگ کرنے والے ڈین جونز ایک وقت میں اس قدر ڈی ہائڈریٹڈ (پانی کی کمی) کا شکار ہوگئے تھے کہ وہ پچ پر ہی گر گئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کریز پر بہادری سے 500 منٹ تک ڈٹے رہے اور 210 رنز کی شاندار اننگ کھیلی۔ اس اننگ کے فوری بعد جونز کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں ڈرپ لگوائی گئی۔

کئی لوگوں کے لیے یقیناً یہ بات حیران کن ہوگی کہ جونز نے اپنے کیریئر کی پہلی ہی اننگ میں مضبوط ویسٹ انڈیز کے خلاف اسی کی سرزمین یعنی پورٹ آف اسپین کے کوئنز پارک اوول ٹریک میں 48 رنز کی اننگ کھیلی تھی۔ پھر 1990ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف آکلینڈ کے ایڈن پارک میں محض 90 گیندوں پر شاندار ناقابلِ شکست 100 رنز بنائے تھے۔ انہوں نے اپنی اس اننگ میں سر رچرڈ ہیڈلی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جنہوں نے اس میچ میں اپنے کیریئر کی سب سے بہترین اننگ کھیلی تھی۔

جونز کا اپنے کیریئر کے عروج پر یوں ریٹائرمنٹ کا فیصلہ اتنا ہی تیز تھا جتنا ان کی بیٹنگ ہوا کرتی تھی۔ جونز نے آسٹریلیا کی نمائندگی کرتے ہوئے 52 ٹیسٹ اور 164 ون ڈے میچ کھیلے جس میں انہوں نے تقریباً 10 ہزار رنز بنائے۔ ان کے ٹیسٹ کیریئر میں 2 ڈبل سنچریاں بھی شامل تھیں۔

یہ وہ فیصلہ تھا جس نے کئی لوگوں کو حیران کردیا اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ سب کیسے ہوگیا؟ معاملہ کچھ یوں ہے کہ 1994ء میں دورہ جنوبی افریقہ میں 8 میچوں پر مشتمل طویل سیریز کے فائنل میں جنوبی افریقہ کو شکست دے کر آسٹریلیا سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن جونز کو اس وقت غصہ آیا جب مارک ٹیلر اور ڈیوڈ بون کو ان پر ترجیح دی گئی۔ جونز نے کہا ’کیا آپ یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آپ مجھ سے بہتر کھلاڑی ہیں؟ واقعی؟ ٹھیک ہے، بس بہت ہوگیا، میں اپنا کام کرچکا ہوں‘۔ اور یوں ڈین جونز نے فوراً ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔

جونز کے کیریئر میں تنازعات بھی شامل ہیں۔ ان میں سب سے معروف تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب انہوں نے باریش ہاشم آملہ سے متعلق ریمارکس پاس کیے۔ یہ 2006ء کی بات ہے جب جنوبی افریقی ٹیم دورہ سری لنکا میں تھی اور ایک میچ کے دوران جب ہاشم آملہ نے کیچ پکڑا تو جونز نے کہا کہ ’دہشت گرد کو ایک اور وکٹ مل گئی‘۔ یہ ایک ایسا جملہ تھا جسے ڈن جونز نے بہت عرصے سہا اور اس پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ پھر ڈین جونز کو اس بات کا خمیازہ اس وقت اٹھانا پڑا جب ٹین اسپورٹس نے اس نے معاہدہ ختم کردیا۔

اس سے قبل انہوں نے اپنے کیرئیر کے دوران 1993ء میں ایک بار کرٹلی ایمبروز کی کلائی پر بینڈ باندھ کر باؤلنگ کروانے پر اعتراض کیا تھا اور زبردستی اس بینڈ کو ہٹوانے کے لیے زور دیا تھا، اور اس مطالبے کو مبیّنہ طور پر نسلی تعصب کا رنگ دیا گیا۔ جونز کی درخواست پر ناراض ہونے والے ایمبروز نے اس میچ میں 5 وکٹیں حاصل کیں اور اپنی ٹیم کو میچ میں فتح دلوائی۔ لیکن جونز پر کبھی بھی نسلی تعصب کا الزام ثابت نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے دنیا بھر میں اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم کیے۔

جب جونز کا بطور کھلاڑی کیریئر ختم ہوا تو انہوں نے کوچنگ کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بنا لیا۔ موجودہ آسٹریلوی ہیڈ کوچ جسٹن لینگر انکشاف کرتے ہیں کہ وہ اپنی اس کوشش میں تقریباً کامیاب ہوگئے تھے کہ ٹی20 فارمیٹ میں آسٹریلوی ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ڈین جونز کو بطور مینٹر ساتھ ملا لیں۔

ویسے تو دنیا بھر میں کھیلی جانے والی ٹی20 لیگ کی متعدد فرنچائز ڈین جونز کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھیں، مگر 2009ء کے بعد سے ان کا پاکستان سے محبت بھرا رشتہ کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھا۔ پاکستان میں کرکٹ کی واپسی سے متعلق ان کو جب بھی جہاں بھی موقع ملتا وہ اپنی اس رائے کا بے دھڑک اظہار کرتے۔

پی ایس ایل کی 2 مرتبہ فاتح رہنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ کے ساتھ 4 سال گزارنے والے ڈین جونز نے خود کو دیگر کوچز کے مقابلے میں کچھ الگ پیش کیا کیونکہ وہ اکثر ڈگ آؤٹ میں ٹو پیس سوٹ پہنے نظر آتے تھے۔ پھر جب انہوں نے مکی آرتھر کے بعد اس سال کراچی کو بطور کوچ جوائن کیا تو ان کی یہ روایت یہاں بھی برقرار رہی۔ لیکن یقینی طور پر کراچی کنگز کے لیے یہ بہت ہی بُری خبر ہوگی کہ اگلے ماہ کھیلے جانے والے پلے آف مقابلوں میں ڈین جونز اور ان کی مشہور و معروف نوٹ بک کا ساتھ انہیں میسر نہیں ہوگا۔

ڈین جونز اکثر ڈگ آؤٹ میں ٹو پیس سوٹ پہنے نظر آتے تھے
ڈین جونز اکثر ڈگ آؤٹ میں ٹو پیس سوٹ پہنے نظر آتے تھے

جونز سے جب بھی مختلف ٹی20 لیگز کا موازنہ کرنے کے لیے سوالات کیے جاتے تھے تو وہ سفارتی نقطہ نظر کو اپناتے اور کوئی واضح جواب نہیں دیتے۔ جب اس سال کے شروع میں ان سے پوچھا گیا کہ وہ پی ایس ایل اور انڈین پریمئر لیگ (آئی پی ایل) کا موازنہ کریں تو انہوں نے کہا کہ ’دونوں کے درمیان موازنہ کیا جائے تو آئی پی ایل زیادہ بہتر ہے لیکن یہ بھی کہا کہ پی ایس ایل میں زیادہ بہترین باؤلنگ دیکھنے کو ملتی ہے‘۔ پھر جب ان سے برِصغیر کی ان دونوں لیگز کا آسٹریلوی بگ بیش لیگ سے موازنہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ دیگر لیگوں کے مقابلے میں بگ بیش ایک الگ مقام رکھتی ہے۔

اگرچہ جونز کا کرکٹ کیریئر وقت سے پہلے 33 برس کی عمر میں ختم ہوگیا لیکن وہ مزید 26 سال تک مقبول رہے اور اس کی ایک وجہ بھی تھی۔

وہ لوگ جنہوں نے ڈین جونز کے ساتھ کام کیا ہے وہ کبھی بھی یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ کتنے جوشیلے اور جذبے سے بھرپور فرد تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت لوگوں سے جڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے مارچ 2019ء میں پاکستانی کرکٹر آصف علی کی نومولود بیٹی کے لیے فنڈ جمع کرنے کی کوشش کی جو کینسر کے مرض میں تھی، لیکن افسوس کہ وہ بعد میں چل بسی۔ ایک پریس بریفنگ میں وہ آصف علی کی بیٹی کی طبیعت سے متعلق بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے۔

ڈین جونز کی کرکٹ میراث انتہائی کمال کی ہے، اور وہ صرف ان کی زبردست شخصیت اور بہترین انسانی خوبیوں کے آگے ہی جھکتی ہے۔


یہ مضمون 4 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں