ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ کا ملزمان کی رہائی روکنے کے حکم میں توسیع سے انکار

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2020
عدالت نے اپیل کنندہ کی جانب سے تیاری نہ ہونے پر دلائل دینے کے لیے مہلت کی استدعا منظور کرلی—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے اپیل کنندہ کی جانب سے تیاری نہ ہونے پر دلائل دینے کے لیے مہلت کی استدعا منظور کرلی—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کیس میں 4 ملزمان کی رہائی روکنے سے متعلق اپنے حکم نامے میں توسیع کرنے سے انکار کردیا تاہم اپیل کنندہ کی جانب سے تیاری نہ ہونے پر دلائل دینے کے لیے مہلت کی استدعا منظور کرلی۔

دوسری جانب سندھ حکومت نے وال اسٹریٹ جنرل کے بیورو چیف ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کیس میں سزا یافتہ ملزم احمد عمر سعید شیخ کی حراست میں مزید 3 ماہ کی توسیع کردی۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے مذکورہ کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ڈینیئل پرل کے اغوا کار کی حراست میں 3 ماہ کی توسیع کردی ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ اقدام انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 کے تحت اٹھایا گیا یا مینٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ نے ملزمان کو رہا کرنے سے روک دیا

خیال رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل جنوبی ایشیا کے بیورو چیف ڈینیئل پرل کے والدین کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ نے دو اپریل کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید اور 20 لاکھ جرمانے میں تبدیل کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں۔

18سال قید میں گزارنے والے عمر سعید کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے امریکی صحافی کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی لیکن سندھ ہائی کورٹ کی جانب ان کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور اس لحاظ سے وہ پہلے ہی اپنی سزا پوری کر چکے ہیں۔

البتہ حکومت سندھ نے ایک حکمنامہ جاری کیا تھا جس کے تحت قتل کے الزام میں قید عمر سعید اور دیگر چار ملزمان کو 30 ستمبر تک حراست میں رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے 28 ستمبر کو حکومت سندھ کو امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں ملوث ملزمان کو رہا کرنے سے روک دیا تھا۔

آج ہونے والی سماعت میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے التوا کی درخواست کی اور مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان کی رہائی سے متعلق گزشتہ سماعت کا حکم نامہ 5 اکتوبر کو ملا، حکم نامہ تاخیر سے ملنے کی وجہ سے دستاویز تیار نہ کر سکے۔

پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے درخواست کی کہ کیس کی مرکزی اپیلیں جمع ہیں لیکن مزید دستاویزات جمع کرانے کے لیے مہلت چاہیے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل کیس میں اپیل پر فوری فیصلے کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا

جس پر عدالت نے کہا کہ آپ ملزمان کو پہلے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت نظربند کر چکے ہیں، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ عدالت کے باہر کیا ہو رہا ہے۔

سماعت میں ملزمان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سندھ ہائیکورٹ نے 3 ملزمان کو رہا اور ایک کی سزا میں نرمی کی تھی تمام ملزمان 18 سال سے قید میں ہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ بات سندھ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بات لکھی کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ جیل میں گزار دیا ہے چنانچہ ملزمان کو رہا ہونے کے فیصلے کا صلہ ملنا چاہیے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہم نے اپیلیں ابتدائی سماعت کے لیے منظور کی تھیں اور آج کے دن تک رہائی کا آرڈر ملتوی کیا تھا۔

بعدازاں عدالت نے عمر شیخ سمیت دیگر ملزمان کی رہائی کی معطلی کے اپنے سابقہ حکم میں توسیع سے انکار کرتے حکم کو مزید ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل کیس میں اپیل پر فوری فیصلے کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا

عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمان کی رہائی میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ مختاراں مائی کیس کے ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کے دوران رہائی روکنے کا عدالت کو آج تک افسوس ہے، اپیلوں میں ملزمان بری ہو گئے تھے اور عدالتی حکم کی وجہ سے انہیں جیل میں مزید وقت گزارنا پڑا تھا۔

بعدازاں عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور دیگر وکلا کو آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 21 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

عدالت نے مقدمے میں نامزد 4 ملزمان کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی درخواست

واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی کی قتل کی ویڈیو کی ایک سرکاری عہدیدار (پی ٹی وی کے ایک ماہر) سے تصدیق کروائی گئی تھی جبکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

چنانچہ جمع شدہ ثبوتوں اور خاص کر ملزم اور شریک ملزمان کے اعترافی بیانات کے تناظر میں ہائی کورٹ کی جانب سے سزا میں تبدیلی اور بریت پائیدار نہیں اور اسے کالعدم ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

اسی طرح فطری اور آزاد شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تاوان کا مطالبہ ملزم نے ہی کیا تھا اور ڈاکیومینٹری ثبوت سے یہ بات ثابت بھی ہوئی چنانچہ سزا میں تبدیلی اور بریت غیر قانونی ہے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ ملزم ایسا کوئی مواد پیش نہیں کرسکا جو پروسیکیوشن کے ثبوتوں کے خلاف شک پیدا کرتا بلکہ شریک ملزمان نے ریمانڈ کے دوران ٹرائل جج کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر اپیل میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے سنگین عوامل سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ ملزم اور شریک ملزمان کی بریت اور سزائے موت میں تبدیلی کا فیصلہ انصاف کا قتل اور عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں