وزیراعظم بتائیں نجی تقریب کیلئے سرکاری املاک کیوں استعمال کیں، جسٹس عیسیٰ

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2020
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیر اعظم سے تقریب میں شرکت ور اس کے انعقاد پر سوال طلب کر لیا— تصویر بشکریہ سپریم کورٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیر اعظم سے تقریب میں شرکت ور اس کے انعقاد پر سوال طلب کر لیا— تصویر بشکریہ سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان سے وضاحت طلب کی کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے جمعہ کو نجی تقریب میں انصاف لائرز فورم سے خطاب کرتے ہوئے سرکاری املاک کیوں استعمال کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جاری کردہ چار صفحات کے فیصلے میں کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے کیونکہ ان کی جانب سے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر نجی تقریب کے لیے عوامی عمارت کے استعمال کا آئین کے آرٹیکل 248 کے مطابق بظاہر ان کے دفتر کے 'اختیارات کے استعمال اور کارکردگی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کے معاونین و مشیروں کا تقرر سپریم کورٹ میں چیلنج

سول معاملے کو اٹھانے والے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس عیسیٰ بظاہر اس وقت پریشان ہوئے جب حال ہی میں ایڈووکیت جنرل کے عہدے پر فائز ہونے والے احمد اویس کی جانب سے ایڈووکیٹ محمود اے شیخ نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی، پٹیشن میں مزید وقت دینے کی درخواست دی گئی تاکہ درخواست گزار محمد طارق احمد اویس کی جگہ کسی اور وکیل کی خدمات حاصل کر سکیں۔

جسٹس عیسیٰ نے عدالتی دفتر کو ہدایت کی کہ وہ معاملے کی سماعت کے لیے مناسب بینچ تشکیل دینے کے لیے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کے سامنے پیش کریں۔

جمعہ کے روز وزیر اعظم نے انصاف لائرز فورم کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی تھی اور اپوزیشن رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے پلیٹ فارم کا استعمال کیا تھا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل محمد قاسم چوہان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ احمد اویس کو رواں سال جولائی میں ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا گیا تھا، لیکن بینچ نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب کافی وقت میسر تھا تو دوسرے وکیل کا تقرر کیوں نہیں کیا گیا، تاہم عدالت نے درخواست گزار کو دو ہفتوں میں ایک اور وکیل سے مشورہ کرنے کو کہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم نے بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں پر کمیٹی تشکیل دے دی

اس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے ایڈیشنل سیکریٹری ایڈووکیٹ سید رفاقت حسین شاہ نے یہ اعتراض کیا کہ احمد اویس کو خود کو بار سیاست میں شامل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ پنجاب بار کونسل کے سابقہ ​​چیئرمین تھے جو وکلا کا ایک ڈسپلنری ادارہ ہے۔

لیکن انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے احمد اویس مبینہ طور پر بار سیاست میں سرگرم عمل رہے اور انہوں نے ایسوسی ایشن کے آئندہ انتخابات میں اپنے اُمیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے قانونی برادری کے ایک خاص طبقے کے ذریعے منعقدہ ایک تقریب میں حصہ لیا اور وہ بھی کنونشن سینٹر اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں آگے آگے تھے۔

تقریب کو تمام ٹیلی ویژن چینلز پر نشر کیا گیا جہاں احمد اویس کو وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، رفاقت شاہ نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ہر شہری کے وزیر اعظم ہیں اور وہ کسی خاص گروہ کے ساتھ خود کو منسلک نہیں کرسکتے اور سب سے بڑھ کر اس طرح سے تقریب کا انعقاد ایک عوامی مقام میں کیا گیا تھا جسے ٹیکس دہندگان کی رقم سے تعمیر کی گئی تھی۔

اپنے حکم میں جسٹس عیسیٰ نے مشاہدہ کیا کہ رفاقت شاہ نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ بہت سنگین امور ہیں جن میں عوامی دفاتر کی شفافیت کو برقرار رکھنے اور بنیادی حقوق شامل ہیں، جن میں آرٹیکل 18 (تجارت، کاروبار یا پیشہ کی آزادی)، 25 (شہریوں کی مساوات) شامل ہیں، آئین کے آرٹیکل 26 (عوامی مقامات تک رسائی کے سلسلے میں بلا امتیاز) نیز وزیر اعظم کے عہدے کی حلف برداری شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پارلیمانی کمیٹی نے نیپرا کے قوانین میں مجوزہ تبدیلیوں پر تحفظات کا اظہار کردیا

حکم نامے میں عدالت کی جاب سے یہ معاملہ اٹھانے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ چونکہ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت بنیادی حقوق میں سے کسی کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا حامل ہے لہٰذا عدالت نے اس کے مطابق نوٹس لیا ہے۔

اس کے بعد حکم میں کہا گیا کہ احمد اویس کو نوٹس جاری کیا جائے، لیکن چونکہ وہ ذاتی طور پر متصادم دکھائی دیتا ہے لہٰذا یہ مناسب ہوگا کہ اگلا اعلیٰ عہدہ دار صوبہ پنجاب کی نمائندگی کرے، اسی طرح وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو بھی ضابطہ اخلاق کے آرڈر 27-A کے تحت نوٹس جاری کیا گیا تھا کیونکہ اس میں آئین اور قانونی پریکٹیشنرز اور بار کونسلز ایکٹ 1973 کی دفعات کی تشریح کی گئی تھی۔

اس آرڈر کے تحت اٹارنی جنرل اور متعلقہ افسران کو تاکید کی گئی کہ وہ مکمل تیاری کے ساتھ آئیں اور بتائیں کہ عوامی عمارت اور وزیر اعظم کے سرکاری دفاتر اور پنجاب کے لیے ایڈووکیٹ جنرل کو جس پارٹی سے وہ تعلق رکھتے ہیں، کیا اس سیاسی جماعت کے ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

اس کے علاوہ حکم میں کہا گیا کہ جو اتھارٹی کنونشن سینٹر کو چلاتی ہے اس کے بارے میں بھی ایک رپورٹ پیش کرنی چاہیے جس میں بتایا جائے کہ تقریب کے سلسلے میں مرکز کے استعمال کی اجازت کس نے لی، کس نے مرکز کے استعمال کی اجازت دی، کیا بل دیا گیا، کیا رقم ادا کی گئی اور اگر ایسا ہوا تو کنونشن کے استعمال کے لیے یہ کس نے ادا کی، حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ان سوالات کے جوابات معاون دستاویزات کے ساتھ جمع کروائے جائیں۔

سپریم کورٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو کنونشن سینٹر میں منعقدہ تقریب کی مکمل ریکارڈنگ کی ایک کاپی پیش کرنے کی بھی ہدایت کی، انصاف لائرز فیڈریشن تقریب کی نقل اور ان ٹیلی ویژن چینلز کے بارے میں بتایا جائے جنہوں نے تقریب کو براہ راست نشر کیا، ان کے بارے میں بتایا جائے جنہوں نے بعد میں بھی نشر کیا اور کتنی بار کیا۔

عدالت عظمیٰ نے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پنجاب بار کونسل سے کہا کہ وہ اس معاملے میں معاونت کریں کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بار کے الیکشن اور اٹارنی جنرل/چیئرمین، پنجاب بار کونسل کے دفتر کی ساکھ اور شفافیت کا معاملہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں