موٹر وے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی کے حوالے سے پیمرا کا حکم معطل

13 اکتوبر 2020
پیمرا نے میڈیا کی موٹر وے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی عائد کردی تھی— فائل فوٹو: ڈان
پیمرا نے میڈیا کی موٹر وے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی عائد کردی تھی— فائل فوٹو: ڈان

لاہور ہائی کورٹ نے موٹر وے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی کے حوالے سے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا حکم معطل کردیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے سردار خان نیازی کی درخواست پر سماعت کی جس میں حکومت پاکستان، پیمرا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کو فریق بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پیمرا نے ٹی وی چینلز کو موٹروے ریپ سے متعلق خبریں نشر کرنے سے روک دیا

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے حکم پر پیمرا نے موٹروے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی لگا دی ہے جو آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے استدعا کی کہ لاہور ہائیکورٹ انسداد دہشتگردی کی عدالت اور پیمرا کے حکم کو کالعدم قرار دے۔

مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ میڈیا مقدمے کی کارروائی سے متعلق رپورٹنگ کرسکتا ہے اور رائٹ آف انفارمیشن کے تحت عوام کو آگاہی سے نہیں روکا جاسکتا۔

تاہم چیف جسٹس نے میڈیا کو ہدایت کی کہ ملزم اور متاثرہ افراد اہلخانہ فیملی کی تصاویر نہیں چلائی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

انہوں نے کہا کہ ملزم عابد کی گرفتاری سے متعلق میڈیا پر وزرا اور مشیروں کی پریس کانفرنس کا ریکارڈ پیش کریں، جب پیمرا نے پابندی لگائی تھی تو وزرا اور مشیروں کی تقریریں کیوں نشر ہوئیں۔

جسٹس قاسم خان نے کہا کہ آئین کے تحت رائٹ ٹو انفارمیشن پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی اور میڈیا کو مقدمے کی کوریج کی اجازت دے دی۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں پیمرا نے انسداد دہشت گردی کے کی عدالت کے حکم پر میڈیا کو مذکورہ مقدمے کی کوریج سے روک دیا تھا۔

پیمرا کے جنرل منیجر (آپریشنز-براڈکاسٹ میڈیا) محمد طاہر کی جاری کردہ ہدایت میں کہا گیا تھا کہ 'تمام سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز (نیوز اور کرنٹ افیئرز) کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ سیالکوٹ موٹروے واقعے سے متعلق معزز انسداد دہشت گردی عدالت کے احکامات کی تعمیل کریں اور مستقبل میں مذکورہ کیس سے متعلق کوئی مواد نشر کرنے سے گریز کریں'۔

مزید پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

درخواست گزار ذوالفقار چیمہ کا عدالت میں کہنا تھا کہ واقعے کی میڈیا کوریج مرکزی ملزم کی گرفتاری میں مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل وقار عابد بھٹی نے تفتیشی افسر کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے پنجاب وٹنیس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے سیکشن 13 (2) پر انحصار کیا۔

مذکورہ سیکشن بیان کرتا ہے کہ اگر عدالت اس سے مطمئن ہو کہ متعلقہ شخص کے ثبوت کے معیار کو نقصان پہنچے گا تو دہشتگردی یا جنسی جرائم سے جڑے شخص کی شناخت یا اس کے کنبے کے افراد کی شناخت کی پرنٹ، الیکٹرانک یا دیگر میڈیا میں رپورٹنگ ممنوع ہوگی۔

اپنے فیصلے میں جج ارشد حسین بھٹہ نے تفتیشی افسر کے اعتراض کو تسلیم کیا تھا اور یہ مشاہدہ کیا تھا کہ یہ سیکس سے متعلق جرم تھا اور میڈیا کوریج سے یقیناً متاثرہ فرد اور اس کے خاندان کی بدنامی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے زیادتی کیس کا مرکزی ملزم عابد ملہی گرفتار

جج کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملزمان میں سے ایک کو شناختی پریڈ کے لیے جیل بھی منتقل کیا گیا تھا اور اگر کیس کی میڈیا کوریج کو نہ روکا گیا تو یہ استغاثہ کی جانب سے جمع کیے گئے مواد کی شہادتی حیثیت کو کم کردے گا۔

اپنے فیصلے میں جج نے لکھا تھا کہ 'لہٰذا چیئرمین پیمرا کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ 9 ستمبر 2020 کو تعزیرات پاکستان کی دفعات 392، 376 (2)، 427، 34 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت تھانہ گجرپورہ لاہور میں درج ایف آئی آر نمبر 2020/ 1369 کیس کی کوریج کو فوری طور پر الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر روکیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں