اسلام آباد بائی کورٹ نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف 8 ارب روپے سے زائد کی مشکوک ٹرانزیکشن ریفرنس میں عبوری ضمانت میں 5 نومبر تک توسیع کردی۔

ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے ٹرانزیکشن کیس میں آصف زرداری کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: نیب نے آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے

آصف علی زرداری کی جانب سے فاروق ایچ نائیک اور جاوید اقبال ایڈووکیٹ جبکہ نیب کی پراسیکوشن ٹیم بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

دوران سماعت وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے آصف علی زرداری کی حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق صدر بیٹھتے ہیں تو کھڑا نہیں ہوا جاتا۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرنے کہا کہ مذکورہ کیس میں درخواست گزار کی موجودگی ضروری ہے۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا ریفرنس دائر ہو چکا یا ابھی انویسٹی گیشن چل رہی ہے۔

پراسیکیوٹر نیب نے بتایا کہ مذکورہ کیس میں ابھی انویسٹی گیشن چل رہی ہے اور جب کیس انکوائری اسٹیج پر تھا تو وارنٹ جاری نہیں کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: آصف زرداری کی درخواست پر نیب کو نوٹس

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آصف علی زرداری کے خلاف خاطر خواہ مواد اکٹھا کیا جا چکا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سابق صدر پہلے ہی ضمانت پر ہیں اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے 4 ریفرنسز دائر کیے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 2 ریفرنسز میں چیف جسٹس نے ضمانت منظور کی ہے۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کی کیا صورتحال ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ آصف علی زرداری کل تک ہسپتال میں زیر علاج تھے آج کی اَپ ڈیٹ نہیں ہے۔

عدالت نے آصف علی زرداری کی آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے عبوری ضمانت میں 5 نومبر تک توسیع کردی۔

علاوہ ازیں عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو وارنٹ گرفتاری کی کاپی آصف علی زرداری کے وکیل کو دینے کی بھی ہدایت کی۔

مزیدپڑھیں: آصف زرداری نے اپنی 3 پُرتعیش گاڑیوں کی ضبطگی چیلنج کردی

واضح رہے کہ نیب نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 8 ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشن سے متعلق ضمنی ریفرنس میں شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

اس حوالے سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کردیے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ سابق صدر آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور متعدد دیگر کاروباری افراد کے خلاف سمٹ بینک، سندھ بینک اور یو بی ایل میں 29 'بے نامی' اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی جعلی ٹرانزیکشنز سے متعلق 2015 کے کیس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد اگست 2018 میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری و فریال تالپور درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں