سرکاری عہدیداروں سمیت 7 افراد کو سرکاری اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ پر 10 سال قید

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2020
جج نے کہا کہ پروسیکیوشن نے کامیابی کے ساتھ  ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کیا — فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز
جج نے کہا کہ پروسیکیوشن نے کامیابی کے ساتھ ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کیا — فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز

کراچی کی احتساب عدالت نے ایک ہزار 700 ایکڑ سابقہ سرکاری زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور تبادلے سے متعلق کرپشن ریفرنس میں 7 افراد کو 10 سال قید کی سزا سنادی۔

سابق مختیار کار محمد سالک نوکریاچ، سابق ٹپے دار عبدالعزیز اور سابق سب رجسٹرار شاہد رضا شاہ کو 4 بلڈرز اور ڈیولپرز واحد بخش، زمان، لعل محمد اور فضل حسین کی ملی بگھت سے جعلی انٹریز کے ذریعے ملیر میں 100 ایکڑ زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور ایک ہزار 729 ایکٹر زمین اسی طرح کی ایڈجسٹ کرنے کے مجرم پائے گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتساب عدالت نمبر 4 کے جج سریش کمار نے شواہد کو دیکھتے ہوئے اور دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

یہ بھی پڑھیں: دوسال میں 363 ارب روپے سے زائد قومی خزانے میں جمع کرائے، نیب

جج نے کہا کہ پروسیکیوشن نے کامیابی کے ساتھ ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کیا۔

اس کے علاوہ جج نے ہر ملزم پر 50 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا جسے ادا نہ کرنے کی صورت میں ہر ایک کو مزید 6 ماہ کی قید بھگتنی پڑے گی۔

عدالت میں فیصلہ سنائے جانے کے وقت تمام ملزمان موجود تھے جنہیں ان کی سزاؤں پر عملدرآمد کے لیے سینٹرل جیل بھجوادیا گیا۔

تاہم عدالت نے انہیں کرمنل کوڈ پروسیجر کی دفعہ 382-بی کا فائدہ دیا جو سزا سناتے ہوئے قید کی مدت سے متعلق ہے۔

ٹرائل کورٹ نے سیکریٹری آفتاب احمد میمن اور بلڈر شبیر حسین کے زمین کے استعمال سے متعلق کیسز کو علیحدہ کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: ‘قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے کو دنیا کے آخری کونے تک نہیں چھوڑیں گے’

پروسیکیوشن کے مطابق اس وقت کے سیکریٹری آفتاب میمن نے مذکورہ بالا مختیار کار، ٹپے دار اور سب رجسٹرار کی ملی بھگت سے مذکورہ بالا بلڈرز کے لیے 100 ایکڑ سرکاری زمین کی ملکیت کے جعلی کاغذات بنائے۔

پروسیکیوشن نے کہا کہ نامزد ملزمان سرکاری ملازم تھے اور ملیر کے دیہہ ٹپو ابراہیم میں مبینہ مفرور ملزمان رضا محمد اور متوفی سجاول کے نام پر بوگس اندراج کے ذریعے غیر قانونی الاٹمنٹ کی گئی۔

پروسیکیوشن نے مزید کہا کہ ڈپٹی کمشنر محمد یونس ڈھاگا ملیر کی جانب سے جامع انکوائری کے بعد ملزمان کے خلاف یکم فروری 1999 کو پرانے اندراج منسوخ کردیے گئے تھے۔

نیب نے الزام عائد کیا کہ اس وقت کے لینڈ یوٹلائزیشن ڈپارٹمنٹ کے اراکین نے ملیر اور کورنگی کی 100 ایکڑ زمین کے ضلعی ملیر کی زمین سے تبادلے کے لیے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھے۔

یہ بھی پڑھیں: این آر او سے قومی خزانے کو نقصان پہنچنے کے شواہد نہیں ملے، نیب

اس سلسلے میں متعلقہ مختیار کار نے محتاط رہتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر سے رہنمائی مانگی کہ کیا سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی کارروائی کے دوران اس قسم کا تبادلہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے تاہم لینڈ یوٹلائزیشن ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ یہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔

درین اثنا یہ انکشاف سامنے آیا کہ 100 ایکڑ زمین کی مالیت 3 کروڑ روپے فی ایکڑ تھی اور لینڈ یوٹلائزیشن ڈپارٹمنٹ کے اراکین نے 23 ستمبر 2016 کو ایک ہزار 729 ایکڑ زمین مذکورہ بالا 7 ملزمان کے نام کرنے کی تجویز دی تھی۔

نیب پروسیکیوشن کے مطابق ملزمان نے قومی خزانے کو 3 ارب 5 کروڑ 95 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں