لکھاری شاعر اور تجزیہ نگار ہیں۔
لکھاری شاعر اور تجزیہ نگار ہیں۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ڈی چوک کے دھرنے، مستقل میڈیا کوریج، احتجاج اور سڑکوں کی بندش کے دن دوبارہ آنے کو ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ان سرگرمیوں کا پس منظر تبدیل ہوگا۔

جب 2014ء میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا دھرنا جاری تھا تو اس وقت خبردار کیا گیا تھا کہ آج جو بویا جا رہا ہے کل اسے کاٹنا بھی پڑسکتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے مبیّنہ سہولت کاروں نے پی ٹی آئی کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ وہ اس سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھنے والے مخالفین کو اس قسم کا احتجاج کرنے کی ’اجازت‘ نہیں دیں گے۔

اس وقت یہ ضرور کہا گیا ہوگا کہ جو چیز عمران خان کو دیگر سیاستدانوں سے منفرد بناتی ہے وہ ان کی عوامی مقبولیت اور ’مالی پاکیزگی‘ ہے۔ یہ اصطلاح پی ٹی آئی کے ایک ایسے حمایتی نے متعارف کروائی تھی جس نے بعد میں کنٹینر سیاست کا حصہ بننے پر ندامت کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیے: ’میں نے کوئٹہ جلسے میں کیا کچھ دیکھا؟‘

اس دوران ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے دوران یہ آوازیں بھی سنائی دیں کہ اگر کسی منتخب حکومت کو غیر شفاف انتخابات کے الزام میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے گھر بھیج دیا جائے تو یہ ایک روایت بن جائے گی۔ لیکن اس وقت ان آوازوں پر کسی نے کان نہیں دھرے۔ غور کیجیے کہ جن قوتوں پر انتخابات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا ہے وہی اس بات کا فیصلہ کریں کہ کون کب کتنے لوگوں کو سڑکوں پر لا سکتا ہے اور اسے کتنی دیر سڑکوں پر رہنے کی اجازت ہوگی۔

آخر کس نے فیصلہ کیا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان کس وقت اپنے ’بھائیوں‘ سے نقد رقم وصول کرنے کے بعد دھرنا ختم کردے گی؟ اور آخر کس نے گزشتہ سال اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ وہ آزادی مارچ کو ختم کردیں؟ اور مہینوں طویل احتجاجی تحریک کے بعد اس بار تصفیہ کروانے والی قوت کون سی ہوگی؟ کیا مریم نواز، بلاول اور مولانا فضل الرحمٰن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نئے انتخابات کی قرارداد پاس کروائیں گے؟ جب تک ہر انتخابات کے بعد اختیارات کی ’حقیقی منتقلی‘ نہیں ہوتی، اس وقت تک سویلین بالادستی کا خواب صرف ایک خواب ہی رہے گا۔

اس سیاسی کھیل میں شامل تمام کردار، چاہے ان کا کردار آئینی ہو یا غیر آئینی، یہ چاہتے ہیں کہ عوام صرف مخصوص واقعات کو یاد رکھیں۔ مثال کے طور پر سیاسی جماعتیں چاہیں گی کہ عوام بھول جائیں کہ ایوان میں کس کے ووٹوں کے ذریعے ملک میں فوجی عدالتیں قائم ہوئیں، سینیٹ کے موجودہ چیئرمین کا تقرر ہوا اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہوئی۔

جو جماعتیں ایوان میں رائے دہی کے دوران اپنے اراکین کو قابو نہیں رکھ سکتیں انہی کی جانب سے اب یہ حکم جاری ہوا کہ جماعت کا کوئی رکن اعلیٰ قیادت کی اجازت کے بغیر ملک کی عسکری قیادت سے ملاقات نہیں کرے گا۔

سابق گورنر سندھ محمد زبیر کو نواز شریف اور مریم نواز کا ترجمان مقرر کیا گیا ہے۔ محمد زبیر نواز شریف کی اجازت کے بغیر آرمی چیف سے ملاقات کرنے والے نون لیگ کے پہلے رکن ہیں یا آخری؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ نہ ہی پہلے شخص ہیں اور نہ ہی آخری۔ ان سے پہلے بھی کئی لوگ ایسے ہوں گے اور ان کے بعد کئی لوگ ایسے آئیں گے جو دونوں طرف کے لیے پیغام رسانی کا کام کریں گے اور محاصرے کا شکار بادشاہ کا پیغام محاصرہ کرنے والوں تک پہنچائیں گے۔

مزید پڑھیے: مزارِ قائد کا تقدس، ’ایم آر ڈی‘ اور ’پی ڈی ایم‘ تحریک کا اس سے تعلق!

ان باتوں کا یہ مقصد نہیں ہے کہ سویلین بالادستی کے حصول کی کوشش نہ کی جائے۔ سویلین بالادستی تو پاکستان کے وجود کے لیے ناگزیر ہے۔ ان باتوں کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا ذہن اس حوالے سے واضح ہونا چاہیے کہ زندگی میں کچھ بھی مفت میں حاصل نہیں ہوتا۔

ماہرِ معاشیات تھامس سوول نے کہا تھا کہ ’یہاں کسی چیز کا حل نہیں ہے، صرف سمجھوتے ہیں‘۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ موجودہ حالات ایک طویل سلسلے کی کڑی ہیں جس کے کرداروں میں مشرق وسطیٰ کی کمزور ہوتی ہوئی ریاستوں سے لے کر علاقائی شدت پسندوں، مسلم دنیا کی خود ساختہ قیادت، تہذیبی حریف اور آزاد دنیا کے لیڈر کو تبدیل کرتی ہوئی نئی سپر پاور تک سب ہی شامل ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کی قیمت ویسے تو تمام جمہوریت پسندوں کو ادا کرنی پڑے گی لیکن سب سے بھاری قیمت لبرل اور ترقی پسندوں کو ادا کرنی ہوگی۔ پاکستان افغان امن عمل میں اپنے کلیدی کردار کا دعویٰ کرتا ہے جس وجہ سے اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ جب افغان طالبان کو حکومت میں شراکت داری کا موقع ملے گا تو پاکستان کا مذہبی طبقہ بھی یہاں اسی طرح کی خواہش ظاہر کرے گا۔ کچھ طبقات ایسے ضرور ہوں گے جو اس بات کا سہرا لینے کی خواہش کریں گے کہ بات چیت کے لیے طالبان کو تو انہوں نے راضی کیا تھا۔ حالانکہ ان کی یہ خواہش کتنی بار پوری ہوچکی ہے، لیکن اس معاملے میں ہزاروں پاکستانی اپنی جان سے چلے گئے۔ حکومت کے چلے جانے پر جمعیت علمائے اسلام (ف) شریعت کے نفاذ سے لے کر مدرسوں کو کسی بھی قسم کی مالی اور تعلیمی پابندیوں سے آزاد رکھنے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیے: حکومت مخالف اپوزیشن کی تحریک میں اصل ’رسک‘ کیا ہے؟

نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاست میں دخل اندازی کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن ان کا اپنا نمائندہ ہی عسکری قیادت سے ملاقات کر رہا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں شمولیت کو روکنا ہی مقصود ہے تو ان سے ملاقات کیوں کی جارہی ہے؟

آنے والے متوقع دھرنے کے پُرزور حامی کی جانب سے بھی اس بات کا اقرار کیا گیا کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ہی ان کی اعلیٰ عسکری قیادت سے ملاقات ہوئی تھی اور دھرنا ختم کرنے کے عوض ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سویلین بالادستی اسی کا نام ہے؟


یہ مضمون 20 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں