خواجہ آصف کی شہباز شریف کے ساتھ ’خفیہ‘ ملاقات پر نیب کی خاموشی

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2020
خواجہ آصف کو نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے ملاقات کی خصوصی اجازت دی گئی تھی —فائل فوٹو: اے پی
خواجہ آصف کو نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے ملاقات کی خصوصی اجازت دی گئی تھی —فائل فوٹو: اے پی

لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایک ہفتے قبل لاہور بیورو کے دفتر میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ محمد آصف کی ‘خفیہ‘ ملاقات پر چپ سادھ لی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس ملاقات کے بعد قیاس آرائیاں کی جارہیں کہ شریف برادران کی جماعت کچھ معاملات پر ’مذاکرات‘ کے لیے اب بھی مقتدر قوتوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔

یاد رہے کہ ایک ہفتے قبل جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں نیب کی حراست میں تھے، تب نیب نے خواجہ آصف کو ان سے ملاقات کی اجازت دی تھی۔

تاہم اب شہباز شریف مذکورہ کیس میں کوٹ لکھپت جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف کا بیان اپوزیشن میں دراڑ ڈالنے کی کوشش ہے، آصف زرداری

نیب کے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پی) کے مطابق بیورو میں ملزم سے ملنے کی اجازت صرف ان افراد کو ہوتی ہے جن کے پاس عدالتی حکم ہو یا پھر ان کے پاس چیئرمین نیب کا خصوصی اجازت نامہ موجود ہو۔

تاہم خواجہ آصف کے معاملے میں چیئرمین نیب کی جانب سے انہیں شہباز شریف سے حراست میں ملاقات کے لیے خصوصی اجازت دی گئی تھی۔

ڈان کی جانب سے پیر کو نیب کے ترجمان نوازش علی عاصم کو ایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا جس میں ٹھوکر نیاز بیگ میں واقع لاہور بیورو آفس میں ڈائریکٹر جنرل میجر (ر) سلیم شہزاد کی موجودگی میں شہباز شریف اور خواجہ آصف کی ملاقات کے لیے چیئرمین نیب کی جانب سے خصوصی 'اجازت نامے' کے بارے میں پوچھا گیا تھا، تاہم انہوں نے اس پر چپ سادھ لی اور منگل تک اس کا جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'

دوسری جانب اسی حوالے سے خواجہ آصف نے بھی ڈان کے سوال کا جواب نہیں دیا لیکن انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے اس ملاقات پر سے پردہ اٹھایا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ انہیں شہباز شریف کے دفتر سے کال موصول ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ (شہباز شریف) آپ سے (نیب حراست میں) ملنا چاہتے ہیں، جس کے بعد میں لاہور میں نیب آفس گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ خفیہ ملاقات نہیں تھیں جیسے اسے نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے پیش کیا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن، حکومت اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، وزیراعظم

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد خواجہ آصف نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (سی آئی ٹی) کے سامنے اپنے خلاف اقامہ سے متعلق کیس میں اسی عمارت میں پیش ہوئے۔

ادھر وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ شہباز شریف نے نیب حراست میں 'خفیہ' ملاقات کی ہے، اس کے ساتھ ہی ملاقات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال اور رانا تنویر کی موجودگی کا بھی کہا گیا تھا لیکن خواجہ آصف نے اس سے انکار کردیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے ڈان سے بات کی لیکن درخواست کی کہ آپ اس کی رائے کو نہ لیں کیونکہ یہ حساس معاملہ ہے۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اس ملاقات کا اہتمام 'اسٹیبلشمنٹ میں موجود عناصر' نے کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ان عناصر کا پیغام شہباز شریف کو پہنچایا گیا، جو ان کے بڑے بھائی نواز شریف کی حال ہی میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کی جانے والی جارحانہ تقاریر کے حوالے سے تھا'۔

خیال رہے کہ شہباز شریف ’مفاہمت کی سیاست‘ کے لیے مشہور ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے علم میں لائے بغیر ہی 'خفیہ ملاقات' کا انتظام کیا گیا تھا، 'اگرچہ انہیں پیغام بھیج دیا گیا تھا'، جس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کیوں ان کے علم میں لائے بغیر خواجہ آصف اور کمپنی نے شہباز شریف سے اس مقصد کے لیے ملاقات کی‘۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے خواجہ آصف کو 26 جون کو طلب کرلیا

واضح رہے کہ یہ 'خفیہ' ملاقات نواز شریف کی اپنی جماعت کو کی جانے والی ان ہدایات کے پس منظر میں کی گئی تھی، جس میں نواز شریف نے جماعت کے لوگوں کو ان کی اجازت کے بغیر عسکری یا خفیہ ایجنسیز کے لوگوں سے بغیر ان کی اجازت کے ملاقات کرنے سے منع کیا تھا۔

سابق وزیر اعظم نے یہ ہدایات اس وقت جاری کیں جب فوج کے ترجمان نے انکشاف کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے دو مرتبہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور ان سے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سیاسی و قانونی پریشانیوں پر تبادلہ خیال کیا اور ان کے لیے ریلیف چاہا۔

اندرونی ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ 'اگرچہ یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے ساتھ عسکری یا انٹیلیجنس ایجنسی کے شخص کی ملاقات نہیں تھی (لیکن) بظاہر لگتا ہے کہ اس ملاقات کا انتظام دونوں میں سے کسی ایک نے کیا ہے'۔


یہ خبر 28 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں