اسکاٹ لینڈ (برطانیہ) کے شہر ایڈن برگ میں واقع ’ایڈن برگ کالج آف آرٹ’ کے طلبہ کے لیے ماڈل کے طور پر اپنی خدمات پیش کرنے والے لڑکے نے نہ کبھی سوچا ہوگا اور نہ ہی ان طلبہ نے، کہ ان کا سامنا مستقبل کی فلمی نگری کے عظیم اداکار سے ہے۔

فلمی دنیا میں چاہے فلم ساز ہو یا اداکار، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسی فلم ضرور تخلیق کرے یا کوئی ایسا کردار نبھائے، جس سے وہ بڑی اسکرین پر اس طرح امر ہو کہ فلم بینوں کے حافظے میں محفوظ ہوجائے۔ پھر ایسا تو بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کوئی ایک اداکار کوئی کردار نبھائے، اور اس کو زبردست شہرت اور عروج مل جائے، لیکن جب باقی دیگر اداکار اسی کردار کو نبھائیں تو وہ اس کی دھول تک نہ پہنچ سکیں۔ ایسے اداکار، جن کو یہ بامِ عروج ملا ہو، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، انہی معدودے چند شہرہ آفاق اداکاروں میں سے ایک اداکار کا نام ’تھامس شون کونری’ ہے۔

60 کی دہائی میں پہلی مرتبہ وہ ’جیمز بونڈ’ کے روپ میں بڑی اسکرین پر جلوہ گر ہوئے۔ یہ کردار بشمول ان کے کئی اداکاروں نے نبھایا، اور آج تک اس کردار کو پیش کیا جاتا رہا ہے، لیکن کوئی اداکار ان کی اداکاری کے مقابل ٹھہر نہیں سکا، بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ ان کا مقابلہ صرف اپنے آپ سے تھا اور اس میں وہ سرخرو رہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو سارا زمانہ ان کو یاد کر رہا ہے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے آباؤ اجداد آئرلینڈ سے ہجرت کرکے اسکاٹ لینڈ آئے تھے۔ 90 سال کی عمر پانے والے شون کونری 25 اگست 1930ء کو اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برگ میں پیدا ہوئے۔ والدین کا تعلق متوسط طبقے سے تھا، یعنی والد مزدور تھے اور والدہ صفائی ستھرائی کا کام کیا کرتی تھیں۔

انہوں نے خود بھی کم عمری میں کئی طرح کے کام کرکے زندگی کی گاڑی کو چلایا۔ رائل نیوی سے منسلک ہونے اور پھر فارغ کیے جانے کے علاوہ، مزدوری اور دیگر چھوٹے موٹے بہت سارے کام شامل ہیں، مگر ان کی آنکھوں میں خوابوں کی چمک اتنی تیز اور روشن تھی کہ وہ اس روشنی کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی منزل تک آگئے، اور وہ منزل تھی، اداکاری کی دنیا میں بہترین مقام، جس کو وہ حاصل کرکے رہے۔

ٹامی کے نام سے مشہور ’شون کونری’ نے اپنا پہلا نام اس لیے بھی حذف کردیا کہ زمانہ طالب علمی میں ان کے ایک ہم جماعت کا نام بھی یہی تھا، جس کی وجہ سے اکثر ان کو پریشانی ہوتی تھی۔ انہوں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ اپنا پہلا نام استعمال نہیں کریں گے، یوں وہ ہمیشہ ’شون کونری’ ہی کہلائے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں ایک موڑ ایسا بھی آیا جب ان کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ فٹبالر بنیں یا اداکار، اور انہوں نے دل کی آواز پر اداکاری کا انتخاب کیا اور وقت نے ان کے فیصلے پر درست ہونے کی مہر بھی ثبت کی۔

باڈی بلڈنگ جیسا شوق بھی ان کی ابتدائی زندگی کا اہم حوالہ ہے۔ غربت کی سختیوں نے شاید ان کو باڈی بلڈر بنا دیا، اور انہوں نے اتنی محنت کی کہ 50 کی دہائی میں باڈی بلڈنگ کے عالمی مقابلے ’مسٹر یونیورس’ میں تیسرے نمبر تک آگئے۔

شون کونری کی 1964ء میں لی گئی تصویر— فوٹو: رائٹرز
شون کونری کی 1964ء میں لی گئی تصویر— فوٹو: رائٹرز

کم عمری میں جہاں ایک طرف ان کو غربت کے تھپیڑے سہنے پڑے، وہیں دوسری طرف ان میں زندگی کی مشکلات کو بہادی سے جھیلنے کی عادت پڑی، ساتھ ساتھ طبیعت میں رومانوی عناصر بھی شامل ہوگئے، کیونکہ بچپن سے ہی وجاہت کا نمونہ اور دلکش شخصیت کے مالک ہونے کی وجہ سے محبوب اور مہربان نسائی چہروں کی کمی نہیں تھی۔ وہ ان کے ایک اشارے پر قربان ہونے کے لیے تیار تھے۔ ان کی یہ حُسن پرستی تمام عمر رہی، اور کئی شادیاں اور معاشقے ان کی شخصیت میں مختلف رنگ بھرتے رہے۔ مگر ایک شے سے ان کی وفاداری مقدم رہی، اور وہ اداکاری تھی۔ یعنی جھوٹی اداکاری کے ساتھ یہ ہمیشہ سچے رہے۔

1954ء میں حادثاتی طور پر اداکاری کے شعبے میں داخل ہوئے۔ ایک تھیٹر پروڈکشن کے ذریعے ان کو ایک چھوٹا سا کردار ملا، جس نے انہیں اداکاری کی طرف راغب کیا۔ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تھیٹر میں ’ایکسٹرا’ کے کردار کرتے کرتے مرکزی کرداروں تک خود کو لے آئے۔ ان کی زندگی میں قسمت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔

ان کو ایک جز وقتی ملازمت ملی، جس میں ان کا کام ایک بچے کی حفاظت کرنا تھا اور اس بچے کے والدین میں والد صحافی اور والدہ اداکارہ تھیں۔ اسی ملازمت میں ان کی ملاقات اس وقت کی ہولی وڈ میں معروف اداکارہ ’شیلے ونٹرز’ سے ہوئی، جس نے ان کو بتایا کہ ’تمہاری قدو قامت اور شخصی وقار بتا رہا ہے کہ تم ایک بنے بنائے اداکار ہو‘۔

یہی زمانہ ہے، جب وہ تھیٹر کے منچ پر اپنی جدوجہد میں مصروف تھے۔ اسی زمانے میں ان کو ٹیلی وژن پر بھی ایک مختصر کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ 50 کی دہائی کے آخری برسوں میں ان کو پہلی مرتبہ فلم میں بھی کام کرنے کا موقع مل گیا، یہی وہ راستہ تھا، جس پر کامیابی اور شہرت کی دیوی ان کا راستہ دیکھ رہی تھی۔

ایک دہائی سے زیادہ جدوجہد کرتے ہوئے گزر چکا تھا، لیکن ’شون کونری’ کو وہ کردار نہیں مل رہا تھا، جس سے وہ اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح ثابت کر پاتے. آخرکار 60 کی دہائی میں ان کو پہلی مرتبہ ’جیمز بونڈ’ کے کردار کی پیشکش ہوئی۔ اس کردار نے جیسے ان کی زندگی ہی بدل دی۔ انہوں نے اس کردار کو مزید 6 مرتبہ کیا۔

1962ء سے 1983ء تک یہی جہانِ فلم کے یکتا جیمز بونڈ تھے، اور اس کے بعد کوئی ان جیسا کردار نہ نبھا سکا۔ اس سلسلے میں 1962ء میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم ’ڈاکٹر نو’ تھی، جس میں انہوں نے جیمز بونڈ کا کردار نبھایا اور ان کی آخری فلم 2003ء میں ریلیز ہوئی، جس کا نام ’دی لیگ آف ایکسٹرا آرڈنری جینٹل مین’ تھا۔ 2006ء میں انہوں نے باقاعدہ طور پر اداکاری سے ریٹائرمنٹ لے لی۔

تقریباً 60 برس کے اداکاری کے کیرئیر میں انہوں نے 100 کے قریب فلموں میں کام کیا۔ دنیا بھر کے فلم سازوں نے ان کو اپنی فلموں میں کاسٹ کیا۔ وہ ٹیلی وژن اور تھیٹر کے منچ سے بھی جوہرِ اداکاری دکھاتے رہے۔ آسکر، بافٹا سمیت شوبز کے تمام بڑے ایوارڈز ان کے حصے میں آئے، لیکن سب سے بڑھ کر فلم بینوں کی مداح سرائی کا اعزاز تھا کہ پوری دنیا میں فلم بین ان کے نام اور کام سے بخوبی واقف رہے۔

جیمز بونڈ والی 7 فلموں کی سیریز (1962ء-1983ء) کے علاوہ، ان کی مشہور زمانہ فلموں میں 1964ء میں ریلیز ہونے والی معروف برطانوی فلم ساز الفریڈ ہچکوک کی فلم ’مارنی’ بھی شامل ہے، جبکہ دیگر مقبول فلموں میں سے چند ایک فلموں کے نام اور عرصہءِ ریلیز کچھ یوں ہیں۔

  • دی ہل (1965ء)
  • مڈر آن دی اورینٹ ایکسپریس (1974ء)
  • دی مین ہو ووڈ بی کنگ (1975ء)
  • آ برج ٹو فار (1977ء)
  • ہائی لینڈر (1986ء)
  • دی نیم آف دی روز (1986ء)
  • دی اَن ٹچ ایبل (1987ء)
  • اڈیانا جونز اینڈ دی لاسٹ کروزڈ (1989ء)
  • دی ہنٹ فور ریڈ اکتوبر (1990ء)
  • ڈریگن ہارٹ (1996ء)
  • فائنڈنگ فوسٹر (2000ء)

شون کونری کا شمار چند ایک ایسے اداکاروں میں بھی ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے کیریئر کے اختتام تک عروج ہی دیکھا۔ انہوں نے جب ریٹائرمنٹ لی، تب بھی ان کو بہت بڑی بڑی فلموں کی پیشکش ہو رہی تھی، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے فلموں کا ایسا سنہری دور دیکھا کہ اب ان کا دل اکتانے لگا تھا کیونکہ فلم سازوں کی اکثریت ایسی فلمیں بنارہی تھی، جن میں اسکرپٹ کے اعتبار سے کافی خامیاں تھیں۔

ان کو ’دی لارڈ آف دی رنگز’ اور ’دی میٹرکس’ جیسی کامیاب کمرشل فلموں کی پیشکش ہوئی، مگر انہوں نے یہ کہہ کر ان فلموں کو رد کردیا کہ انہیں ان فلموں کے اسکرپٹ معیاری نہیں لگ رہے اور ایک موقع پر تو انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ ’ہولی وڈ میں اب ایرے غیرے نتھو خیرے فلمیں بنا رہے ہیں‘۔ یہی وجہ ہے کہ صحت مند ہونے کے باوجود فلمی دنیا سے انہوں نے رخصت لے لی، مگر جتنا کام کیا، وہ یادگار اور معیاری کیا۔

یہی وجہ ہے کہ آج جب وہ ہم میں سے رخصت ہوئے ہیں تو پوری دنیا ان کو خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔ بے شک ’سر تھامس شون کونری’ کی خدمات کو عالمی سنیما کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ ایک عظیم اداکار کیسا ہوتا ہے، ہم مثال کے طور پر اس اداکار کا نام بہت اعتماد سے پیش کرسکتے ہیں، یہی ان کی زندگی کی جیت تھی، جس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد مضمر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں