اسلام آباد: جیل منتقلی کے فیصلے نے دارالحکومت کے بفرزون پر بحث چھیڑدی

اپ ڈیٹ 03 نومبر 2020
کابینہ کو جیل منتقلی کا معاملہ کسی کنسلٹنٹ کے سپرد کرنا چاہیے، حکام فائل فوٹو: اے ایف پی
کابینہ کو جیل منتقلی کا معاملہ کسی کنسلٹنٹ کے سپرد کرنا چاہیے، حکام فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: کابینہ کی جانب سے زیر تعمیر جیل کو سیکٹر ایچ 16 کے ’بفرزون‘ سے منتقل کرنے کے حالیہ فیصلے نے بحث کو جنم دیا ہے کیونکہ یہ علاقہ عملی طور پر بفرزون میں نہیں آتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ نے حال ہی میں سیکٹر ایچ 16 سے زیر تعمیر جیل کی منتقلی کا فیصلہ کیا ہے جس پر پہلے ہی ڈیڑھ ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔

واضح رہے کہ بفرزون ایک ایسی نیوٹرل سائٹس ہیں جو 2 علاقوں کو الگ کرتا ہے، اسلام آباد کا بفرزون، اسے راولپنڈی سے الگ کرتا ہے۔

کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے افسران سے جیل کی تعمیر کے منصوبے اور کابینہ کے فیصلے پر ہونے والے انٹرویو میں یہ واضح ہوا کہ سیکٹر ایچ 16 اسلام آباد کے اصل بفرزون میں نہیں آتا۔

سی ڈی اے حکام کا کہنا تھا کہ دارالحکومت کے لیے اصل ماسٹر پلان پہلے ہی راولپنڈی کے لیے تھا، جس کے تحت سیکٹرز اے سے ایچ تک اسلام آباد جبکہ سیکٹر جے سے او تک راولپنڈی میں تعمیر کیے جانے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں جیل کی تعمیر کا فیصلہ عدلیہ کے سپرد

دونوں شہروں کو علیحدہ کرنے کے لیے سیکٹرز ایچ میں ایک بفرزون کا تعین کیا گیا تھا مگر 1963میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سیکٹرز ایچ کے بجائے سیکٹرز آئی تک اسلام آباد پر مشتمل ہوگا کیونکہ اس کے ذریعے جڑواں شہروں کو آئی، جے پرنسپل روڈ سے علیحدہ کیا گیا تھا۔

تاہم بفر زون جسے آئی۔ جے۔ پی روڈ تک منتقل کردینا چاہیے تھا لیکن تبدیل نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ 70 کی دہائی میں سیکٹر ایچ 16 اور اس سے ملحقہ علاقوں کو بفر زون میں شامل کرنے کے مقصد میں پہلے ہی کمی ہوگئی تھی کیونکہ سی ڈی اے نے سرکاری عمارتوں کے لیے زمین الاٹ کردی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ کامیاب سی ڈی اے انتظامیہ اور حکومت کی غلطی کی وجہ سے حال ہی میں کابینہ کا یہ فیصلہ سامنے آیا جبکہ کابینہ کے اراکین بفرزونز کی اصل حیثیت سے واقف نظر نہیں آئے تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی 114 جیلوں میں گنجائش سے 19 ہزار قیدی زیادہ ہیں، محتسب

دارالحکومت کا ماسٹر پلان 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں راولپنڈی، اسلام آباد اور اسلام آباد نیشنل پارک شامل ہیں، یہ اسلام آباد ایکسپریس وے اور سرینگر ہائی وے کے ذریعے علیحدہ ہوتا ہے اور دونوں ایک ہزار 200 فٹ چوڑے ہیں۔

دارالحکومت اسلام آباد کی حدود کو 1963 میں نوٹیفائی کیا گیا تھا اور پھر جنوبی طرف بڑھادیا گیا تھا جبکہ اس وقت سیکٹر ایچ اور آئی اسلام آباد میں شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرینگر ہائی وے کا جنوبی گرین زون دونوں شہروں کے درمیان گرین بفر زون کی طرح سمجھا جاتا تھا جسے نوٹیفائی نہیں کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کو غیر آئینی قرار دے دیا

آئی جے پی روڈ کا جنوبی علاقہ جسے دراصل بفر زون میں شامل ہونا چاہیے تھا نہیں کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ اس تبدیلی کی روشنی میں جسے اگرچہ نوٹیفائی نہیں کیا گیا تھا، 1970 کی دہائی کے ابتدا میں سیکٹر ایچ 8/2 میں سی ڈی اے کی جانب سے علامہ اقبال یونیورسٹی اور ریڈ کریسنٹ کو زمین دی گئی تھی جبکہ اس علاقے کو زمینی حقائق کی روشنی میں اب بھی بفر زون کا حصہ سمجھا جائے گا۔

کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ 2008 میں وزیراعظم کی جانب سے 'بفر زون' کے حجم میں کمی کی گئی تھی، جس میں دونوں ہائی وے کے ساتھ ہاؤسنگ اسکیم، دریائے سون کے شمال، سیکٹر ڈی 10 کے شمال میں حکومتی دفاتر اور ڈپلومیٹک انکلیو ایکسٹینشن بھی ’بفر زون‘ میں شامل تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکٹر ایچ 13، ایچ 14، ایچ 15 اور ایچ 17 غیر حاصل شدہ سیکٹرز ہیں کیونکہ یہ نجی افراد کی ملکیت ہیں اور کوئی گرین اور بفرزون کا تصور نہیں رکھتے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2017 میں وزارت داخلہ، اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری (آئی سی ٹی) انتظامیہ اور ضلعی عدلیہ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تھی تاکہ سی ڈی اے اور عدالت ماڈل جیل کے لیے سائٹ کو منتخب کرسکیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں 108 سرکاری عمارتیں غیر مجاز ہیں، رپورٹ

یاد رہے کہ 2012 میں فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سائٹ کا حتمی فیصلہ کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں سی ڈی اے بورڈ کی منظوری سے سیکٹر ایچ 11/2 میں 90 ایکڑز جیل کے لیے الاٹ کیا گیا تھا جبکہ 2014 میں سائٹ کا قبضہ آئی سی ٹی انتظامیہ کو دے دیا گیا تھا۔

سی ڈی اے حکام کا کہنا تھا کہ 2016 میں کابینہ کو اس کی سمری بھیج دی گئی تھی کہ سیکٹر ایچ 12/2 اور سرینگر ہائی وے کے ساتھ سیکٹر ایچ 16 میں کے شمالی ہالف میں ماسٹر پلان میں تبدیلی کی جائے، اس کے ساتھ ہی ’بفر زون’ کو رہائشی اور تجارتی اداروں میں تبدیل کرنے کے لیے کہا گیا جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

بعد ازاں ستمبر 2019 میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ اگر عدلیہ نے فیصلہ کیا کہ موجودہ سائٹ پر ماڈل جیل کی تعمیر کا آغاز کیا جائے، موجودہ ڈھانچے تقریباً 20 ایکڑ پر محیط ہوگا اور اس پر باڑ لگائی جائے گی، اس کے ساتھ ہی باقی علاقے کی الاٹمنٹ کو گرین ایریا کی بحالی کے لیے روک دیا جائے گا، بصورت دیگر جیل کے ڈھانچے کو منہدم کرکے اسے منتقل کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل سے معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم

علاوہ ازیں سی ڈی اے، آئی سی ٹی اور پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کو ہدایات کے علاوہ کابینہ نے سی ڈی اے کو ہدایت جاری کی کہ ان تمام الاٹ شدہ اراضی کو منسوخ کرے جہاں گرین 'بفر زون میں تعمیر نہیں ہوئی تھی۔

حکام کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کی روشنی میں سیکٹر ایچ 8، ایچ 9، ایچ 10، ایچ11، ایچ 12 اور ایچ 16 میں سینٹرل انجینیئرنگ لیب، پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہاؤس، واپڈا ہسپتال، ہندو کمیونٹی سینٹر اور شمشان گھاٹ، ریجنل ٹریننگ انسٹی ٹیوشن، اسلام آباد ٹریفک پولیس، پاکستان انسٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکانمی، ایئر یونیورسٹی، فاسٹ یونیورسٹی اور دوسری حکومتی تنظیموں کی تعمیر کے لیے پلاٹس کی الاٹمنٹ منسوخ کردی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کو یہ مسئلہ کسی کنسلٹنٹ کے سپرد کردینا چاہیے جو مناسب فیصلے کے لیے دارالحکومت کے ماسٹر پلان پر نظر ثانی کرے۔

دریں اثنا اس معاملے پر بات کرنے والے سی ڈی اے سینئر حکام نے ناموں کو پوشیدہ رکھنے کے لیے کہا لیکن ان کا کہنا تھا کہ جڑواں شہروں کے درمیان یہ علاقہ عملی طور پر بفر زون میں شامل نہیں۔


یہ خبر 3 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں