عمران خان، فروغ نسیم اور شہزاد اکبر، جسٹس عیسیٰ ریفرنس کے ذمہ دار قرار

اپ ڈیٹ 05 نومبر 2020
جسٹس مقبول باقر نے جاری کردہ اپنے 66 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ کہا کہ وزیر اعظم کی سابقہ معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان توہین عدالت کی مرتکب ہوئی ہیں — فائل فوٹو:ڈان
جسٹس مقبول باقر نے جاری کردہ اپنے 66 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ کہا کہ وزیر اعظم کی سابقہ معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان توہین عدالت کی مرتکب ہوئی ہیں — فائل فوٹو:ڈان

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) 2001 کے تحت وزیر اعظم عمران خان، وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اور ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے چیئرمین شہزاد اکبر اور نادرا آرڈیننس کے تحت ادارے کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں جلد بازی کرنے کا ذمہ دار ٹھہرادیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس مقبول باقر نے جاری کردہ اپنے 66 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں کہا کہ وزیر اعظم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے صدر مملکت عارف علوی کو مطلوبہ تجاویز بھیجنے کے بھی ذمہ دار ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے مشاہدہ کیا کہ وزیر اعظم کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اپنی پریس کانفرنس میں بلاوجہ اور تضحیک آمیز تبصروں کے لیے توہین عدالت کی مرتکب ہوئیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کو 'سیکیورٹی خطرے‘ کے طور پر کیوں دیکھا جاتا ہے، سرینا عیسیٰ کا صدر سے سوال

19 جون کو سپریم کورٹ نے ایک مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر تین غیر ملکی جائیدادوں کو ظاہر نہ کرنے پر صدارتی ریفرنس کو ختم کردیا تھا۔

عدالت نے 23 اکتوبر کو جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ کے ساتھ اکثریت کے تفصیلی فیصلے وجوہات جاری کی تھیں۔

جسٹس مقبول باقر نے مشاہدہ کیا کہ اگر جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں تشریح کو قبول کرلیا گیا تو ججز، وزیر اعظم اور صدر سمیت ہر ٹیکس دہندگان کو اپنی دولت / اہلیہ اور بچوں کے ہر اثاثے کو ان کے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کرنا ہوگا۔

اس سے ہر ٹیکس دہندگان انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) کی دفعہ 116 (2) کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوجائے گا کہ اس کی بیوی زیورات سمیت ایسی کسی بھی جائیداد کی مالک ہے جو شوہر کی آمدنی سے پیدا نہیں ہوئی ہے یا جس سے شوہر لاعلم ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کی تشریح سب سے زیادہ شادی شدہ خواتین ٹیکس فائلرز کو بھی دفعہ 116 کی خلاف ورزی پر مجبور کردے گی کیونکہ زیادہ تر بیویاں اپنے شوہروں کے اثاثوں کی تفصیلات نہیں رکھتیں اور اپنے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اپنے شوہر کے اثاثوں کو رپورٹ نہیں کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح، حوالے میں دی گئی تشریح قانون کے تحت ویلتھ اسٹیٹمنٹ کی ضرورت کو شامل کرنے کے مقصد کے پیش نظر کوئی معنی نہیں رکھتی‘۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: بارز نے نظرثانی درخواستوں کیلئے تشکیل کردہ بینچ پر سوالات اٹھادیے

انہوں نے کہا کہ ’ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ آمدنی میں بیلنس شیٹ کی حیثیت سے کام کرتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی آمدنی ٹیکس سے نہیں بچ سکی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اگر ان کی کمائی کے علاوہ اہلیہ اور انحصار نہ کرنے والے بچوں کے اثاثوں کو سیکشن 116(2) اور 116(1) کے تحت ظاہر نہیں کیا ہو گا۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا ’اگر انہوں نے اس طرح کے اثاثوں کو ظاہر کیا بھی ہو تو وہ غلط ریٹرن دائر کریں گے، یہ قانون دونوں میاں بیوی کو اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ایک جیسے اثاثے ظاہر کرنے کا نہیں کہتا۔

جسٹس باقر نے کہا کہ اے آر یو اور اس کے چیئرمین دونوں کسی بھی قانون سے اس کا حصہ نہیں بن سکتے تھے اور ان کے سارے اقدامات بغیر کسی دائرہ اختیار کے ہیں۔

انہوں نے خفیہ نگرانی کے ذریعے درخواست گزار جج کے خلاف مواد اکٹھا کرنے کے طریقہ کار سے متعلق الزامات پر کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ اے آر یو چیئرمین کسی بھی قانونی حیثیت سے محروم ہے اور اس طرح کے مواد کو اکٹھا کرنے کا قطعی اختیار نہیں رکھتا تاہم انہوں نے اپنے نام نہاد دفتر کا غلط استعمال کیا اور اپنی خواہشات پر کام کیا۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ریاست کا اس میں کوئی تعلق نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرے یا اسے اکٹھا کرے جب تک کہ ایسا کرنے کا کوئی معقول اور جائز مقصد نہ ہو۔

جسٹس باقر نے کہا کہ ’یہاں تک کہ وزیر اعظم کسی انکم ٹیکس آفیسر/کمشنر سے کسی بھی شخص کے ٹیکس گوشوارے فراہم کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتا جب تک کہ درخواست سیکشن 216 کی تمام ضروریات کو پورا نہ کرلے'۔

تبصرے (0) بند ہیں