چکوال کی بااثر سیاسی شخصیت نے پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرلی

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2020
سردار غلام عباس نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1985 میں پیپلز پارٹی  کی جماعت سے کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان اخبار
سردار غلام عباس نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1985 میں پیپلز پارٹی کی جماعت سے کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان اخبار

چکوال: سال 2018 کے انتخابات سے پارٹی میں اندرونی سیاسی تنازعات اور موجودہ صورتحال سے مایوس ہوکر مقامی بااثر سیاسی شخصیت سردار غلام عباس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے اپنی راہیں الگ کرنے کا اعلان کردیا، انہوں نے گزشتہ انتخابات سے قبل ہی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بالکسر میں اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ 'آج سے اپوزیشن کا نعرہ میرا نعرہ ہے'۔

سردار غلام عباس کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے بیانے کو قبول کرتے ہیں اور انہیں 2018 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنے پر پچھتاوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پی ڈی ایم کی تحریک اقتدار کی جنگ نہیں ہے

ان کا کہنا تھا کہ 'میں یہ مانتا ہوں کہ میں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر ناانصافی کی اور وہ میری حماقت تھی'۔

واضح رہے کہ سردار غلام عباس کی پارٹی سے علیحدگی نے ان کے بھتیجے سردار آفتاب اکبر کو پریشان کردیا ہے جو پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں۔

ان کے علاوہ سردار غلام عباس کے چند قریبی ساتھی بھی اہم عہدوں پر فائز ہیں، جن میں پی ٹی آئی کے چکوال میں سینئر نائب صدر چوہدری خورشید بیگ اور پارٹی جنرل سیکریٹری عامر بٹ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: تمام اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہے، مولانا فضل الرحمٰن

ہائر ایجوکیشن کے صوبائی وزیر راجا یاسر ہمایوں سرفراز بھی ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔

سردار غلام عباس کا کہنا تھا کہ 'یہ فیصلہ لینے سے پہلے میں نے سردار آفتاب اکبر اور راجا یاسر کو آگاہ کردیا تھا اور میں توقع کرتا ہوں کہ وہ اس نئے سیاسی سفر میں میرے ساتھ شامل ہوں گے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ میرے دوسرے تمام دوست اس فیصلے کو قبول کریں گے جو میں نے ان ہی کے مفاد میں اور چکوال کے لوگوں کے فائدے کے لیے کیا ہے'۔

واضح رہے کہ سردار غلام عباس نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1985 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے کیا تھا، وہ 2 مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور صوبائی وزیر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دی تھیں۔

بعدازاں 1997 میں انہوں نے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد وہ 2 مرتبہ ضلعی ناظم منتخب ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کی 2 سالہ کارکردگی کو 'تباہ کن' قرار دے دیا

سال 2011 میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور 2013 کے عام انتخابات سے قبل انہوں نے اس جماعت کو بھی چھوڑ دیا تھا۔

مزید یہ کہ 2016 میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی جس میں وہ مئی 2018 تک رہے جس کے بعد انہوں نے دوبارہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

سال 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے کی توقع کررہے تھے لیکن جائیداد کو چھپانے کی وجہ سے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ

حکومتی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے سردار غلام عباس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب عمران خان، وزیراعظم بنے تو ہم سوچ رہے تھے کہ وہ ایک ویژن رکھتے ہیں لیکن ان کے 2 سال سے زیادہ کے دور حکومت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ویژن کے علاوہ سب کچھ رکھتے ہیں۔

دوسری جانب راجا یاسر ہمایوں کا کہنا تھا کہ سردار غلام عباس کا پارٹی چھوڑ دینا جماعت کے لیے دھچکا نہیں ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے، میری پارٹی پی ٹی آئی ہے'، ان کا کہنا تھا کہ 'سردار غلام عباس نے انتخابات میں میری بہت مدد کی جس کے لیے میں ان کا مشکور ہوں'۔

پی ٹی آئی کے ضلعی صدر پیر وقار حسین کا کہنا تھا کہ 'پی ٹی آئی ایک سمندر کی مانند ہے اور صرف ایک قطرے کے نکل جانے سے سمندر کی حیثیت میں کمی نہیں آتی ہے'۔


یہ خبر 6 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں