لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

ملک اس وقت ایک مرض کا شکار ہے۔ ایک ایسا مرض جس کی شدت ملک کو درپیش گزشتہ تمام امراض سے زیادہ ہے۔

اس مرض سے متاثر کچھ مظاہرین کسی بڑے شہر کے مشہور چوک پر جمع ہوجاتے ہیں اور خوب نعرے بازی کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان میں لاتعلقی اور حقارت کا احساس پیدا ہو کوئی سرکاری عہدے دار وہاں پہنچ جاتا ہے۔

اس پورے عمل میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مظاہرین کو کچھ راتیں فٹ پاتھ پر بسر کرنی پڑیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پولیس ڈرامائی حالات پیدا کرنے اور سرکاری مداخلت دکھانے کے لیے لاٹھیوں اور آنسو گیس کا بھی استعمال کرے۔ یقیناً اس پورے عمل میں لوگ بھی زخمی ہوں گے اور عزتِ نفس بھی مجروح ہوگی۔ لیکن یہ اس معاملے کا وہ پہلو ہے جو زیادہ پریشان کن نہیں۔

اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہمیں حکومتی عہدے داروں کی جانب سے بتایا جاتا ہے کہ مذاکرات ’کامیاب‘ ہوگئے ہیں اور مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ کچھ دن پہلے اس وقت بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو ملی جب وفاقی وزیر علی محمد خان نے اعلان کیا کہ انہوں نے وفاقی دارالحکومت میں کئی دنوں سے دھرنے پر بیٹھی لیڈی ہیلتھ ورکرز سے خود جاکر بات کرنے کا کارِ عظیم انجام دیا ہے اور اب معاملات حل ہوگئے ہیں۔

اس عمل سے مجھے پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے مابین ہونے والے عوامی سطح کے ایک مباحثے میں موجود وہ کارکن برائے امن یاد آگیا جسے اپنے دلائل مکمل کرنے کی بہت جلدی تھی۔ وہ تمام بحث طلب امور پر بس یہ کہہ دیا کرتا تھا کہ ’یار ہوگیا نا۔۔۔ چھوڑو یہ بات طے ہوگئی ہے‘۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تمام مسائل کو صرف اچھی نیت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کرنا۔

چودھری شجاعت کی ہی مثال دیکھ لیں۔ ان کے پاس مصالحت کروانے کی بہترین صلاحیت ہے لیکن انہیں بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یعنی وہ جب اپنے طور پر معاہدہ کرچکے ہوتے ہیں تو ان سے زیادہ طاقتور قوتوں کا فیصلہ کچھ اور ہوتا ہے۔ لال مسجد کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ ماضی میں بھی لوگوں نے ان مذاکرات کو ناکام ہوتا دیکھا ہے جنہیں وہ اپنے طور پر کامیاب تصور کرتے تھے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ جس پر شرمندہ ہوا جائے۔ تاہم حکومت اور عوام کے درمیان تیز رابطے کی اس جدید دنیا میں مسائل کا شکار افراد کے ساتھ اس رویے کو عادت بنانا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔

ہر مسئلہ پاک بھارت تنازع جتنا سنگین نہیں ہوتا۔ کئی مسائل ایسے ہوتے ہیں جنہیں ایک بااختیار حکومتی نمائندہ عوام کے درمیان کھڑے ہوکر اسی وقت حل کرسکتا ہے۔ ایسا شخص مشکلات کے مارے ان پاکستانیوں کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں ہوگا جو ان مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ عوام شدت کے ساتھ ایسے مسیحا کی تلاش میں ہیں۔

لیکن یہاں کہانی میں ایک موڑ آتا ہے۔ ماضی قریب میں طریقہ کار یہ رہا ہے کہ کسی حکومتی شخصیت کو مذاکرات کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور اس کے بعد کسی معاہدے کا اعلان بھی کردیا جاتا ہے، لیکن تھوڑی ہی دیر میں مظاہرین کی طرف سے کسی بھی معاہدے کی تردید کردی جاتی ہے۔

یہی صورتحال علی محمد خان کی جانب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے احتجاجی کیمپ کے ’کامیاب‘ دورے کے بعد بھی پیش آئی۔ ہم پنجاب حکومت اور کبھی نہ خوش ہونے والے ینگ ڈاکٹروں کے درمیان مذاکرات میں بھی اس صورتحال کا متعدد مرتبہ مشاہدہ کرچکے ہیں۔

کچھ اسی قسم کے حالات اس وقت بھی دیکھنے کو ملے جب بلوچ طلبہ لاہور میں سراپا احتجاج تھے۔ یہ طلبہ کئی دن تک مال روڈ پر موجود رہے اور شروع میں انہیں جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ بہرحال بعد میں کچھ نیک دل حکمرانوں کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے بعد ان طلبہ نے اپنا احتجاج ختم کردیا۔

یہ بلوچ طلبہ پنجاب کی یونیورسٹیوں کی جانب سے ان کی اسکالر شپ ختم کیے جانے پر احتجاج کر رہے تھے۔ یہ طلبہ گئے تو ان کی جگہ سابق فاٹا کہ طلبہ نے لے لی۔ ان طلبہ کو یہاں آئے کئی روز ہوچکے ہیں اور انہیں امید ہے کہ اس قسم کے مظاہروں میں پیش آنے والے ابتدائی مراحل سے انہیں نہیں گزرنا پڑے گا۔

یہ طلبہ واقعی خوش قسمت ہوں گے اگر انہیں جلد ہی کسی بااختیار شخص تک رسائی حاصل ہوجائے جو اسکالر شپ سے متعلق ان کے مسائل کو حل کرسکے۔ ان طلبہ کی قلیل تعداد کو دیکھتے ہوئے ان کی مشکلات کے جلد حل کی امید کم ہی ہے کیونکہ یہاں تو اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں موجود مظاہرین کو بھی اپنی بات منوانے میں مشکل پیش آتی ہے۔

رواں ہفتے کسانوں نے گندم کی بہتر قیمت ملنے کے لیے لاہور میں احتجاج کیا۔ شہروں میں رہنے والوں کو ان کسانوں سے شفقت اور سرپرستی کا اظہار کرنا چاہیے۔ ہماری بنیادی ضرورت پوری کرنے والوں کو اس طرح احتجاج کرتے ہوئے دیکھنا شرمندگی کا سبب ہے کہ کھیت کھلیان چھوڑ کر یہ افراد ایک درخواست لیے اس بنجر شہر تک آنے پر مجبور ہوئے۔

ایک کسان ہمارے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے، اس وجہ سے وہ خاص عزت و احترام کا حق دار ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ اپنے روزمرہ مسائل کے حل کے لیے بھی لاری سے شہر جاتا ہے اور متعلقہ ’بابو‘ کو تلاش کرتا ہے۔ لیکن جیسا کہ بڑے شہروں میں ہوتا آیا ہے، اسے بھی اپنے مطالبات کے حل کے لیے اسی عمل سے گزرنا ہوگا جس سے سب گزرتے ہیں۔

کسانوں کی نسبتاً زیادہ تعداد اور بھڑکتے ہوئے جذبات کو دیکھ کر لاہور پولیس نے واٹر کینن کے استعمال اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ اس عمل کے بعد ان غریب اور بے یار و مددگار کسانوں کی تصاویر گردش کرنے لگیں۔ ان تصاویر میں وہ لاٹھی چارج کا شکار دکھائی دے رہے تھے۔ تصاویر کے منظرِ عام پر آنے بعد وہی پرانا طریقہ اختیار کیا گیا جس میں ایک عہدے دار نے مذاکرات کرکے کسانوں سے معاہدہ ہوجانے کا اعلان کردیا لیکن اس اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی کسانوں نے کسی بھی معاہدے کی تردید کردی۔

یہ طرزِ عمل سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس طرح تو آپ خود ہی اپنے لوگوں اور مذاکرات کاروں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو وہ دن دُور نہیں جب تمام سرکاری مذاکرات کار اپنے وقار اور اختیارات کے حصول کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔


یہ مضمون 6 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں