سپریم کورٹ خیبر پختونخوا ورکرز ویلفیئر بورڈ میں بدعنوانی اور جانبداری پر برہم

07 نومبر 2020
سپریم کورٹ نے کہا کہ محکمہ گزشتہ کئی برسوں سے جس طرح سے کام کررہا ہے اس سے عدالت حیرت زدہ اور ششدر ہے— فائل فوٹو بشکریہ سریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے کہا کہ محکمہ گزشتہ کئی برسوں سے جس طرح سے کام کررہا ہے اس سے عدالت حیرت زدہ اور ششدر ہے— فائل فوٹو بشکریہ سریم کورٹ ویب سائٹ

مباد: سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا ورکرز ویلفیئر بورڈ (ڈبلیو ڈبلیو بی) کی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ گزشتہ کئی برسوں سے جس طرح سے کام کررہا ہے اس سے عدالت حیرت زدہ اور ششدر ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے لکھے گئے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اس سے قانون، قواعد و ضوابط اور ضابطوں کی مکمل توہین، خلاف ورزی اور بے عزتی کی ایک قابل رحم تصویر پیش کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: کانٹریکٹ ملازمین کے کیس میں پشاور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کا جواب مسترد

جسٹس احسن چیف جسٹس گلزار احمد کی زیر سربراہی قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے رکن تھا جس نے پشاور ہائی کورٹ کے 29 مارچ 2018 کو کیے گئے فیصلے کے خلاف اپیل کو سنا اور فیصلہ دیا تھا جہاں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں خیبر پختونخوا ورکرز ویلفیئر بورڈ کو خدمات کو باقاعدہ بنانے کا حکم دیا تھا، اس کے کچھ ملازمین کی، محکمہ نے اعلیٰ عدالت کے روبرو اس حکم کے خلاف اپیل کی تھی۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں کنٹریکٹ پر پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ، مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ اور میٹرک ٹیک انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے والے ملازمین نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے یہ حکم جاری کیا تھا۔

اپنے 19 صفحات پر مشتمل حکم میں سپریم کورٹ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ نے وقتاً فوقتاً قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی یا اس میں ترمیم کی، نامنظور یا نظرانداز کیا تھا اور حتیٰ کہ اس طرح کے استثنیٰ کے نوٹسز جاری کیے جن پر سوالات اٹھتے ہیں۔

عدالت نے مزید کہا کہ دستاویزات کو سرکاری خزانے کے خرچے پر بدعنوانی، استبداد، مفاد پرستی اور ذاتی یا سیاسی مفادات کو چھپانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کو کانٹریکٹ ملازمین کا کیس سننے سے روک دیا

فنڈز کی بڑی مقدار ان پسندیدہ افراد کو دی گئی تھی جنہیں بغیر کسی طے شدہ عمل، میرٹ، مسابقت اور شفافیت کے اصولوں پر عمل کیے بغیر تقرری دی گئی تھی۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ بڑے پیمانے پر تقرریاں بلاتفریق کسی پیمانے، معیار، بنچ مارک، کم سے کم قابلیت اور دیگر عوامل کو نظرانداز کرتے ہوئے کی گئیں۔

فیصلے کے مطابق سرکاری شعبے کے اداروں اور محکموں میں تقرریوں کے لیے درکار معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر بے قاعدگی سے تقرریاں کی گئیں۔

فیصلے کے مطابق جب تک سرپرست متعلقہ عہدوں پر تعینات رہے، ایسے ملازمین کو تنخواہیں ملتی رہیں اور بورڈ کے پے رول پر رہے۔

لیکن جب ایسے سرپرست منتقلی، ترقی یا ریٹائرمنٹ کی وجہ سے عہدے پر نہ رہے تو جانشینوں نے اپنی اپنی اہلیت اور پسند کے مطابق بظاہر قابل اعتراض محرکات کے ساتھ سابقہ ​​تقرریوں کو منسوخ کردیا یا انہیں واپس بلا لیا۔

مزید پڑھیں: اسٹیل ملز سے متعلق منصوبہ صرف تباہی ہے، چیف جسٹس

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس نتیجے میں ہونے والی گڑبڑ کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کی کثرت ہوئی، جس کے نتیجے میں مختلف عدالتوں کے فیصلوں کی دھجیاں اڑ گئیں جو بعض اوقات متضاد اور ایک دوسرے سے متصادم تھے۔

سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا حکومت کو کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا جس کی سربراہی اس کے چیف سیکریٹری کریں گے۔

کمیٹی بورڈ کے ذریعہ ترتیب دیے گئے اسکول سسٹم کے قیام، عمل اور کام کرنے کے قوانین، قواعد و ضوابط کی جانچ کرے گی۔

ورکرز ویلفیئر بورڈ کمیٹی کو ان اسکولوں میں کام کرنے والے پورے عملے کی ملازمت کی شرائط و ضوابط سے متعلق تمام معلومات و سدستاویزات اور مالی دستاویزات فراہم کرے گا۔

کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ بورڈ کے منصوبوں خاص طور پر اپنے اسکولوں میں افراد کو ملازمت دینے کے پورے عمل کی جانچ کے لیے ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر تشکیل دیے گئے سلیکشن بورڈ کے ذریعے تقرریوں کے نظام میں تبدیلیوں کا جائزہ لینے اور تجویز کرنے کا بھی فیصلہ کیا جائے گا۔

یہ کمیٹی گزشتہ 7سالوں سے اسکولوں کے منصوبوں کے خصوصی حوالے کے ساتھ بورڈ کا آزادانہ آڈٹ کروائے گی تاکہ کرپشن، پسند و ناپسند، غیر ضروری قانونی چارہ جوئی اور فنڈز کے رساؤ اور ضائع ہونے کی ذمہ داری طے کی جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: بے نظیر بھٹو مزدور کارڈ کا اجرا یکم جنوری سے ہوگا، سعید غنی

کمیٹی قومی احتساب بیورو (نیب) اور انسداد بدعنوانی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرتے ہوئے کام کرے گی جسے یہ ذمے داری سونپی گئی ہے کہ جہاں عوامی فنڈز استعمال کیے جاتے ہیں، وہ وہاں احتساب کا عمل شروع کریں۔

کمیٹی بورڈ، اس کی انتظامی کمیٹی، چیئرمینوں اور سیکریٹریوں کے کام پر غور کرے گی جنہوں نے گزشتہ 7سالوں میں کام کیا۔

سپریم کورٹ نے ورکرز ویلفیئر بورڈ کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے 3 مہینوں میں مشق مکمل کرنے کا حکم دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں