نیب، ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کی بلا امتیاز واپسی یقینی بنائے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 07 نومبر 2020
اسٹور افسر راشد نیب میں 8 سالوں سے بحیثیت تفتیشی افسر کام کررہے تھے —فائل فوٹو: اے ایف پی
اسٹور افسر راشد نیب میں 8 سالوں سے بحیثیت تفتیشی افسر کام کررہے تھے —فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے اس بات کا بیان حلفی مانگ لیا کہ ڈیپوٹیشن پر بیورو میں کام کرنے والے افسران کو بلا امتیاز ان کے اصل محکموں میں واپس بھیج دیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بظاہر نیب تفتیشی افسران کی شمولیت کے لیے بین الاقوامی معیار کو مدِ نطر رکھتا ہے، نیب کے تفتیشی افسران کو وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات کا ماہر ہونا چاہیئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نیب سے ملٹی انجینرنگ سروس کے ایک اسٹور افسر کی ان کے محکمے میں واپسی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کے افسران میں صلاحیت نہیں، سپریم کورٹ کا احتساب ادارے پر اظہار برہمی

عدالت نے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب خان بھروانہ سے ایک بیان حلفی کے ساتھ تحریری ضمانت مانگ لی کہ بیورو نے تمام افسران کا بلا امتیاز تبادلہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسٹور افسر راشد نیب میں 8 سالوں سے بحیثیت تفتیشی افسر کام کررہے تھے اور حال ہی میں ان کا تبادلہ واپس ان کے اصل محکمے میں کیا گیا تھا۔

اسٹور افسر کے وکیل کا کہنا تھا کہ نیب نے ان کے مؤکل کو امتیازی طریقے سے واپس بھیجا کیوں کہ دیگر محکموں سے نیب میں شامل کیے گئے ’منظورِ نظر‘ افراد کو بحال کیا گیا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ یہ اقدام آئین کی دفعات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا جو تمام شہریوں کے لیے مساوی سلوک کی ضمانت دیتی ہیں۔

مزید پڑھیں: نیب افسران کی تعیناتی میں سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی

دوسری جانب ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کے سامنے مؤقف اپنایا کہ ہارون رشید نے بحیثیت اسٹور افسر پاک بحریہ میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ انجینئرنگ سروس میں کام کررہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہارون رشید کو انکوائری یا تفتیش کرنے کا کوئی تجربہ نہیں۔

جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات انتہائی خاص کام ہے کیوں کہ یہ براہ راست شہریوں کی عزت سے وابستہ ہے اس لیے تفتیشی افسر کو ماہر ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے نوکری پر رہتے ہوئے وائٹ کالر جرائم کی تفتیش کرنے کی تربیت حاصل کی تھی اس عرصے کے دوران انہوں نے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کیا کیا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب میں 'قابل افسران' ضروری ہیں:سپریم کورٹ

جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ نیب نے خدمات اور ذیلی معاملات سے متعلق قواعد وضع کی ہیں جو وزارت قانون کے پاس زیر التوا ہیں۔

عدالت نے حال ہی میں اپنے محکمے واپس بھیجے گئے افسران کی رپورٹ طلب کرلی اور سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔


یہ خبر 7 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں