نئی نسل کے لیے نیا اقبال

نئی نسل کے لیے نیا اقبال

عثمان جامعی

حضرت علامہ محمد اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں، قومی شاعر اِس لیے ہیں کہ اُنہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ اُن کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے غلطی سے ایسا پاکستان بنالیا جس میں مشرقی بنگال بھی شامل تھا۔ کوئی 24 سال بعد خیال آیا کہ لو بھئی، یہ کیا کر بیٹھے، ہمارے مصورِ پاکستان کی بنائی ہوئی تصویر میں بنگال تو تھا ہی نہیں۔ بڑی مشکل سے یہ غلطی درست کی۔

غلطی کا احساس ہوتے ہی ہم نے کلام اقبال پر ازسرِنو غور کیا کہ کوئی اور لغزش کر بیٹھے ہوں تو سنبھل جائیں۔ اِس جائزے میں جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں، بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے کا خرد افروز نکتہ ہاتھ آیا، اور ہم نے فوراً ہاتھ دکھایا، تعداد کے مقابلے میں وزن کو معیار بنایا۔ اب ظاہر ہے دُبلے پتلے ناتواں اور پستہ قد بنگالی لمبے تڑنگے ہٹے کٹے مشرقی پاکستانیوں کے مقابل گنتی میں زیادہ لیکن وزن میں کم نکلے۔ اصولی طور پر تو تعداد کے برعکس ترازو والی اِس جمہوریت میں بھاری بھرکم مغربی پاکستانیوں کی نشستیں پارلیمان میں زیادہ ہونی چاہیے تھیں، لیکن بھائی چارہ اور حُسنِ سلوک بھی کوئی چیز ہوتی ہے، اِس لیے بنگالیوں پر احسان کرتے ہوئے مشرقی اور مغربی پاکستان کی نشستوں کی تعداد برابر رکھی گئی۔ یہ اِس لیے ہوسکا کہ ہمارے اہلِ اقتدار علامہ اقبال کے پیغام کو سمجھ گئے اور گھول کر پی گئے تھے۔

کسی زمانے میں ہمارا بچہ بچہ 'میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں، پر کام کروں گا بڑے بڑے' کا عزم کرتے ہوئے یہ وعدہ بھی کرتا تھا کہ 'میں دور دور لے جاؤں گا اقبال نے جو پیغام دیا۔'

یہ لڑکا بڑا ہوا، دور دور امریکا اور یورپ گیا، اپنا پیغام دے کر گوریوں سے شادی بھی رچائی، لیکن اقبال کا پیغام یہیں رہ گیا۔ وجہ یہ نہیں کہ اس لڑکے کے بیگ میں ضربِ کلیم، بانگِ درا اور بال جبریل وغیرہ کے لیے جگہ نہیں بچی تھی۔

ہوا یہ کہ 'موم' اور 'ڈیڈ' نے اپنی کمزور انگلش کا انتقام انگریزی کو اپنے بچے کی کمزوری بنا کرلیا۔ پھر فخر سے ایک ایک کو بتایا کہ اُن کے 'کِڈ' کی اردو خراب ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بچے کی انگلش بھی بس 'شِٹ' ہی رہی۔ ایسے میں اِس بچے کے لیے اقبال تو کجا ہمارے فیس بُکی دوست الحاج بشیر شاد کا کلام سمجھنا بھی ممکن نہیں رہا، حالانکہ شاد صاحب اپنے ہر شعر کو عنوان بھی دیتے ہیں کہ اُن کا پیغام سمجھنے میں قاری کو ذرا سا بھی وقت اور دماغ صرف نہ کرنا پڑے! اب ایسی نسل کو کلام اقبال سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ پیغامِ اقبال آسان کرکے اِسی نسل کی زبان اور اِن اصطلاحات میں پیش کیا جائے۔ چنانچہ ہم یہ فریضہ ادا کرنے کے لیے 'حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے، کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا' کہتے ہوئے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ ہماری تشریح نئی نسل کو کلام و پیغام اقبال سمجھا سکے گی۔

مردِ مومن

اِس بارے میں فرماتے ہیں، 'مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔' میاں! یوں سمجھ لو کہ یہ پنجابی فلموں کا مولاجٹ، بولی وڈ کا سلمان خان اور تامل فلموں کا رجنی کانت ہوتا ہے۔

آج کے دور میں فیس بُک اور ٹوئٹر پر، خاص طور پر پاک بھارت کرکٹ میچ کے دوران، بغیر تیروخنجر کے دشمن سے گالیوں اور طعنوں تشنی کے ذریعے جنگ آزما ہر پاکستانی اِس تعریف کے مطابق مردِ مومن ہے۔ اِس کی دوسری پہچان ہے، 'جہاں تمام ہے میراث مردِ مومن کی' یعنی وہ سوشل میڈیا کے ذریعے امریکا کی نینسی اور بھارت کی نینا سمیت کسی بھی دیس کی حسینہ سے تعلق استوار کرسکتا ہے کہ یہ سب اُسے جہان کی میراث کے ساتھ ورثے میں ملی ہیں۔

اِسی طرح لندن کے فلیٹس ہوں، سرے محل یا چائنا کٹنگ کی اراضیاں، اِسی حق کے تحت مردِ مومن کے ہاتھ آجاتی ہیں، گویا حق بہ حق دار رسید۔ کسی مفلوک الحال مردِ مومن کے مسلسل تاڑنے کے باعث اگر کوئی دولت مند خاتون تیرِنظر کا شکار ہوکر دل ہار دیتی ہے اور نتیجتاً وہ کسی کوٹھی میں گھر داماد بن جاتا ہے، تو اِسے کہتے ہیں، 'نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں' اِس کی ایک اور شناخت 'خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن' کا مصرعہ بیان کرتا ہے۔

سیدھا سا مطلب ہے کہ کسی مغربی ملک کا ویزا ہاتھ آجائے تو مردِ مومن بہ شمول خاکِ وطن اور خالہ کی بیٹی، کسی پر بھی خاک ڈال کر جاسکتا ہے، خاک سے آزاد جو ہوا۔ اِس ضمن میں آخری بات یہ کہ 'مومن کی یہ پہچان کہ گُم اِس میں ہے آفاق'، اِس کے برعکس کافر آفاق میں گم ہے اور خلاؤں کے سفر کرکے پیسہ ضائع کررہا اور ہلکان ہورہا ہے، لاکھ کہا کہ بھائی سیدھا سیدھا کسی مومن کا ایکسرے یا ایم آر آئی کرالے، آفاق کے سارے حقائق سامنے آجائیں گے، لیکن نہیں، اپنی کرنی ہے، دفع کرو۔ چھوڑو میاں! اِن کافروں سے ہمیں کیا لینا دینا، تم تو یہ جان لو کہ پورا آفاق مومن میں گُم ہے اور کافر اُسے سمجھنے کے لیے خلاء میں گمراہ ہوتا پھر رہا ہے، ایک دن آفاق مومن کے اندر سے پکارے گا، 'ائی تا! میں تو یہاں تھا'، پھر دیکھنا کافر ہکابکا اور اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گا۔

شاہین

کچھ عرصہ پہلے ہر گلی میں ایک شاہین ضرور ہوتی تھی، اب تو یہ نام سُننے کو نہیں ملتا، شاید اِن شاہینوں نے سُن لیا ہوگا، 'تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا'، اور اِس پر عمل کر ڈالا۔

دیکھا علامہ کے پیغام کے غلط معنی لینے کا نتیجہ۔ یوں ہے کہ حضرت اقبال نے جس شاہین کی بات کی ہے وہ یہ گلی محلے والی شاہین نہیں، بلکہ بال و پر والا شاہین یعنی باز ہے، مگر بچو! ہر باز کو شاہین نہیں سمجھ لینا چاہیے، اس باز میں کوئی سابقہ نہیں لگا ہوتا۔ افکارِ اقبال کی رو سے شاہین کی صفات کچھ یوں ہیں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ۔ یعنی گھر نہ ٹھکانا۔

اب ایسے زاہدِ خشک، بلاوجہ جھپٹ پلٹ کر خود کو تھکاتے اور گھر سے بے زار پرندے کا کیا فائدہ، اِس لیے علامہ نے اُسے مشورہ دیا بھیا جان چھوڑ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔ اِس ہدایت پر شاہین سر جھکا کر اُڑ گیا اور دور کہیں پہاڑوں میں جاکر بس گیا تھا۔ پھر جب اُس نے ہماری معاشی حالت دیکھی تو اُسے بہت ترس آیا، قومِ اقبال کے حال پر بہت رویا اور پہاڑوں سے اُتر کر میدانوں اور صحراوں کا رُخ کرلیا کے اُس کی چاہ میں عرب شہزادے آئیں، یہاں محل بنائیں، شکار گاہیں سجائیں اور پاکستان کے مفلس مردِ مومن اُن کی وجہ سے کمائیں کھائیں۔

خودی

یہ فلسفہ خالص پاکستانیوں کے لیے دیا گیا، جس پر ہم نے پوری دل جمعی سے عمل کیا۔ دراصل یہ 'خود ہی' ہے، جسے شعری ضرورت کے تحت خودی کردیا گیا۔ اِس فلسفے پر عمل کے لیے انسان کا پکا سچا خدا پرست ہونا ضروری ہے، جو الحمد اللہ ہم ہیں۔ اُسے یقین رکھنا چاہیے کہ ہر کام خود ہی ہوجائے گا۔ جیسے 71 کی جنگ میں منتظر رہے کہ امریکا ہماری حفاظت کا بیڑا اُٹھائے گا، اُس کا بحری بیڑا آئے گا اور پاکستان خود ہی بچ جائے گا۔ ہمارے حکمرانوں نے فلسفہءِ خودی کو مسلسل اپنا رکھا ہے۔ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ ملک کے مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں گے۔

بہت سے لوگ اِس خودی کو خودداری والی خودی سمجھتے ہیں۔ بات ٹھیک ہے، مگر ہوا یہ کہ علامہ اقبال کا یہ فرمان 'خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے' سُن کر ہم بندے اپنی خودی کو بلند کرتے کرتے اتنی اوپر لے گئے کہ اب وہ خوردبین سے بھی نظر نہیں آتی۔ بے چاری پی آئی اے عشروں تک اِسی خودی کو آسمانوں میں ڈھونڈتی رہی پھر مایوس ہوکر بہت سی پروازیں بند کردیں۔ اب طے ہوچکا ہے کہ خودداری والی خودی کو دفع کرو، فلسفہءِ خود ہی کی رو سے اِسے آنا ہوگا تو خود بہ خود آجائے گی۔

ملت

میاں! مصورِ پاکستان کا تصور ملت جاننے کے لیے بس یہ سمجھ لو کہ 'اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر'، اقوامِ مغرب نیٹو بنائیں یا یورپی یونین، خبردار تم نے خود کو اُن پر قیاس کرتے ہوئے کوئی ایسی حرکت کی۔ اِسی طرح مغربی اقوام میں قومی یک جہتی، اتحاد اور باہمی تعاون جیسی صفات پائی جاتی ہیں، تمہیں اِن سب سے دور رہنا ہے۔

بس اِس سے زیادہ علامہ کے تصورِ ملت کو سمجھنے اور کھوجنے کی کوشش نہ کرنا، ورنہ ذلت اُٹھانا ہوگی، یہ سمجھا جائے گا کہ تمہیں انتہاپسندی کی لت لگ گئی ہے اور پھر حالت خراب کردی جائے گی۔ علامہ اقبال کے تصورِ ملت کے بارے میں اِس نکتے کو ذہن نشین کرلو کہ یہ مسلسل ایک ہی حالت میں رہنے والا تصور نہیں۔

یہ افغانستان میں سوویت یونین کی آمد کے بعد مسلم ملکوں کی علت بن گیا، لیکن سوویت افواج کا انخلاء اور طالبان اور القاعدہ کا ظہور ہوا تو اِس تصور کی قلت ہوگئی۔ اب اگر امریکا کو پھر ضرورت پڑی تو مذہبی کتابوں اور کلام اقبال سے برآمد کرکے اِسے پھر بروئے کار لے آیا جائے گا۔ تب تک اِسے سونے دو، استعمال ہو ہو کے بہت تھک گیا ہے یہ چارہ۔

ہمیں یقین ہے کہ فکرِ اقبال سے اتنی آگاہی نئی نسل کے لیے کافی ہوگی، اِس سے زیادہ اگر ’خوشہءِ گندم کو جلادو‘ جیسے اشعار سمجھ لیے تو یہ شناسائی ناقابل معافی ہوگی۔


عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی ایک کتاب ’کہے بغیر‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ آپ اِس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔


یہ طنزیہ بلاگ ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔