جب رواں سال مارچ کے مہینے میں کورونا وائرس کی بگڑتی صورتحال کے باعث پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 5 کو آخری پلے آف میچ سے پہلے ہی معطل کردیا گیا تو اس وقت یہ خدشہ سر اٹھانے لگا تھا کہ کیا پی ایس ایل کا یہ سیزن اپنا اختتام بھی دیکھ سکے گا یا نہیں۔

پی ایس ایل سیزن 5 کا مستقبل کھٹائی میں پڑگیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پلے آف میں پہنچنے والی 4 ٹیموں یعنی ملتان سلطانز، کراچی کنگز، لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کی انتظامیہ میں بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔

پی ایس ایل سیزن 5 کے تمام لیگ میچ پاکستان میں ہی کھیلے گئے تھے اور شائقین نے بڑی تعداد میں کراچی، لاہور، راولپنڈی اور ملتان اسٹیڈیم کا رخ کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اس حوالے سے تمام دستیاب راستوں پر غور کر رہا تھا۔

ایک آسان راستہ تو یہ تھا کہ پوائنٹس ٹیبل پر برتری کی وجہ سے ملتان سلطانز کو فاتح قرار دے دیا جائے۔ لیکن پی سی بی نے جولائی کے مہینے میں ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ پی ایس ایل سیزن 5 کا فائنل نومبر کے مہینے میں قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا جائے گا۔

پی ایس ایل شائقین کے لیے یہ اعلان راحت کا باعث تھا کیونکہ باقی دنیا کے برخلاف پاکستان کورونا کے شدید اثرات سے نکل آیا تھا۔ 2020ء میں ہونے والے ٹوکیو اولمپک بھی اگلے سال جولائی تک مؤخر کردیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ فرنچ اوپن بھی مئی–جون کے بجائے ستمبر-اکتوبر میں منعقد ہوا اور ٹور ڈی فرانس سائیکلنگ ریس بھی مؤخر کردی گئی۔ اسی طرح ومبلڈن ٹینس چیمپئن شب کو منسوخ کردیا گیا۔

کورونا کے بعد کھیلوں کے بڑے مقابلوں کا محفوظ ماحول میں منعقد ہونا ایک روایت بن چکی ہے۔ کراچی اور لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل سیزن 5 کے آخری کچھ میچ بھی بند دروازوں کے پیچھے اور تماشائیوں کے بغیر کھیلے گئے تھے۔

لیکن یہاں کہانی میں ایک اور موڑ ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پلے آف کے دوران لاہور شدید اسموگ کی لپیٹ میں ہوگا اس وجہ سے بقیہ 4 میچ کراچی میں کھیلے جائیں گے۔ دوسری جانب محکمہ صحت کے حکام آنے والے دنوں میں ملک میں کورونا کے کیسز کے بڑھنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومتیں بھی کسی بڑی تباہی سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کی تیاریاں کیے بیٹھی ہیں۔ ایسی صورتحال میں پی ایس ایل کے بقیہ میچوں کا مستقبل واضح نہیں ہے۔

اس غیر یقینی کی صورتحال کے باوجود چاروں فرنچائز کو مضبوط ترین ٹیمیں تشکیل دینی ہوں گی۔ دیگر بین الاقوامی مقابلوں کی وجہ سے یہ بات تو طے ہے کہ جو کھلاڑی فروری اور مارچ میں موجود تھے ان میں سے کچھ یا اکثر کھلاڑی اب دستیاب نہیں ہوں گے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ 8 ماہ کے آرام کے بعد ٹیموں کی کارکردگی کیسی رہتی ہے؟ لیکن ابھی اس بات پر نظر ڈالتے ہیں کہ آنے والے دن ٹیموں کے لیے کیا تصویر پیش کر رہے ہیں۔

کراچی کنگز

ستمبر کے اواخر میں ڈین جونز کی ناگہانی موت کے بعد کراچی کنگز یقینی طور پر اپنے ہیڈ کوچ کی کمی محسوس کرے گی۔ 2016ء اور 2018ء میں ڈین جونز کی موجودگی میں ہی اسلام آباد یونائیٹڈ نے پی ایس ایل کی ٹرافی اپنے نام کی تھی۔ کوچ اور مینٹور کی حیثیت سے ڈین جونز کا کردار پی ایس ایل کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

تاہم کراچی کنگز کو ایلکس ہیلز کی خدمات حاصل ہوں گی جو سیزن کے آخری میچوں کے دوران بیمار ہوگئے تھے اور واپس چلے گئے تھے۔ اس کے علاوہ ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے شرفین ردرفورڈ بھی کرس جورڈن کی جگہ ٹیم میں شامل ہوں گے۔ ان کھلاڑیوں کی ٹیم میں موجودگی کراچی کنگز کو ایک مضبوط ٹیم بنا دے گی۔ اس کے علاوہ پاکستانی کپتان بابر اعظم بھی ٹیم میں ہوں گے اور یہ کھلاڑی عماد وسیم کی کپتانی میں میدان میں اتریں گے۔

پشاور زلمی

اگر پی ایس ایل میں فتوحات کی شرح کا ذکر کریں تو 2017ء کی فاتح پشاور زلمی کی باقی ٹیموں کی نسبت جیت کی شرح (56.36 فیصد) زیادہ ہے، جبکہ اس نے سب سے زیادہ 31 میچ جیتے ہیں۔ تاہم 2020ء کے پی ایس ایل میں ان کا سفر دشوار رہا اور انہوں نے کسی طرح نیٹ رن ریٹ کی مدد سے پلے آف میں جگہ بنائی کیونکہ ان کے کل پوائنٹس بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرح 9 ہی تھے۔

تاہم پشاور زلمی کو اس بار جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے فاف ڈیوپلیسی کا ساتھ میسر ہوگا جو پہلی بار پی ایس ایل میں جلوہ گر ہوں گے۔ وہ ویسٹ انڈیز کے کیرن پولارڈ کی جگہ ٹیم کا حصہ ہوں گے جو نیوزی لینڈ کے دورے پر ہیں۔ اس کے علاوہ پشاور زلمی کو کارلوس بریتھویٹ بھی دستیاب ہیں، جو بدقسمتی سے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا مستقل حصہ نہیں ہیں، لیکن پشاور کی ٹیم میں جگہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ ان کے علاوہ لیام لیونگسٹون بھی پشاور کو میسر ہوں گے۔

لاہور قلندرز

اگر کوئی ٹیم واقعی جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں اترے گی تو وہ لاہور قلندرز ہوگی۔ قلندرز نے پی ایس ایل میں اپنے 36 میچوں میں سے صرف 10میچ جیتے ہیں اور یہ ٹیم گزشتہ 4 سیزنز میں پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے رہی تھی۔ اس سیزن کے ابتدائی 3 میچوں میں بھی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے بعد جیسے قسمت نے لاہور قلندرز کا ہاتھ تھام لیا اور قلندرز نے اپنے باقی 7 لیگ میچوں میں سے 5 میچ جیت لیے۔ پی ایس ایل کے اس سیزن میں قلندر کا سفر جذبے سے بھرپور ایک داستان ہے۔

اس مرتبہ لاہور قلندرز کی امیدوں کا مرکز 33 سالہ بین ڈنک ہوں گے جنہوں نے پہلے بھی اپنی شاندار کارکردگی سے ایونٹ کو یادگار بنا دیا تھا۔ بین ڈنک کو سمیت پٹیل اور بنگلادیشی اوپنر تمیم اقبال کے ساتھ ساتھ فخر زمان اور شاہین شاہ آفریدی کا ساتھ بھی دستیاب ہوگا۔

ملتان سلطانز

دوسری جانب ملتان سلطانز کے کیمپ میں بنگلادیش کے تجربہ کار آل راؤنڈر محمود اللہ سمیت رائیلی روسو اور عمران طاہر جیسے کھلاڑی موجود ہیں۔ اب تک کی پی ایس ایل فرانچائزوں میں ملتان سلطانز پی ایس ایل میں شامل ہونے والی آخری فرنچائز ہے جو تیسرے سیزن میں اس کا حصہ بنی تھی۔ اس سیزن میں انہوں نے 6 فتوحات حاصل کیں اور پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔ یقیناً ملتان سلطانز کو معین علی کی کمی محسوس ہوگی لیکن خوش قسمتی سے انہیں جیمس وینس کی خدمات حاصل ہیں۔

پی ایس ایل سمیت فرنچائز کی سطح پر کھیلی جانے والی ہر ٹی20 لیگ کا سب سے زیادہ پُرکشش پہلو غیر ملکی کھلاڑیوں کا جمع ہونا ہے۔ لیکن اس مرتبہ پی ایس ایل میں اس حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کی وجہ غیر ملکی کھلاڑیوں کی دیگر مصروفیات ہیں۔ شاید 17 برطانوی کھلاڑیوں میں سے اکثر پلے آف مرحلے میں شریک نہ ہوں کیونکہ انہیں پہلے سے طے شدہ دورے جنوبی افریقہ پر جانا ہوگا۔

بہرحال یہاں کوالیفائنگ ٹیموں کے لیے ایک فائدہ موجود ہے۔ اگر ابتدائی منصوبے پر ہی عمل کیا جاتا تو لاہور اور کراچی کی ٹیمیں سیمی فائنل میں ایک دوسرے سے ٹکراتیں جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی ایک ہی فائنل میں پہنچتا۔ لیکن منتظمین نے پلے آف میچوں کو دوبارہ شامل کرلیا ہے اور اب پہلے ایلی منیٹر میں قلندرز اپنی قسمت پشاور زلمی کے ساتھ آزمائیں گے جبکہ دوسرے میچ میں کراچی کنگز کا مقابلہ ملتان سلطانز کے ساتھ ہوگا۔ اس مقابلے کا فاتح فائنل تک رسائی حاصل کرلے گا جبکہ ہارنے والے کو ایک اور موقع ملے گا اور وہ لاہور- پشاور کے مابین کھیلے گئے میچ کے فاتح سے مقابلہ کرے گا۔ اس میچ میں جیتنے والی ٹیم 17 نومبر کو ہونے والے فائنل میں رسائی حاصل کرلے گی۔

پی ایس ایل سیزن 5 کو الوداع کہنے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہوگا کہ اس کا فائنل لاہور اور کراچی کے درمیان کھیلا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یقینی طور پر اس کا جوش و خروش دگنا ہوجائے گا۔


یہ مضمون 8 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں