'اغوا اور مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ': آرزو کی عمر 14سال ہے، میڈیکل بورڈ

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2020
آرزو کی عمر کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا— فائل فوٹو: ڈان
آرزو کی عمر کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا— فائل فوٹو: ڈان

کراچی میں مبینہ طور پر اغوا کے بعد 'جبری مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے والی' کم عمر مسیحی لڑکی آرزو فاطمہ کی عمر کے تعین کے لیے تشکیل دیے گئے میڈیکل بورڈ نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ بچی کی عمر 14 سے 15 سال کے درمیان ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: مذہب تبدیل کرنے والی آرزو کی عمر کی تصدیق کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم

پیر کو جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں قائم ڈویژن بینچ نے ہدایت کی کہ بچی کو واپس شیلٹر ہوم میں لے جایا جائے اور پولیس سے کہا کہ وہ سندھ چائلڈ میریجز ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے مبینہ شوہر کے خلاف کارروائی کرے۔

آج سماعت کے دوران آرزو نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا تھا اور انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد سید علی اظہر کے ساتھ خوشی سے شادی کر لی تھی۔

بینچ نے مشاہدہ کیا کہ میڈیکل بورڈ کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق لڑکی کی عمر 14 سے 15 سال کے درمیان ہے جبکہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ اس کی عمر 13 سال ہے۔

جب عدالت نے آرزو سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے والدین کے ساتھ یا شیلٹر ہوم جانا چاہتی ہے تو اس نے اپنے شوہر اظہر کے ساتھ جانے پر اصرار کیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد 13 سالہ آرزو کو بازیاب کرالیا گیا، مرتضیٰ وہاب

تاہم بینچ نے مشاہدہ کیا کہ وہ کم عمر دکھائی دیتی ہے اور اپنی مرضی سے شادی کا معاہدہ نہیں کر سکتی، عدالت نے بچی کو واپس شیلٹر ہوم لے جانے کا حکم دیا اور سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

علاوہ ازیں سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کو پیش کی جانے والی میڈیکل رپورٹ سے ثابت ہوا کہ آرزو کی عمر قریب 14 سال ہے۔

آرزو کے والدین کی جانب سے مقدمہ لڑنے والی قانونی ٹیم کا حصہ بننے والے جبران ناصر نے کہا کہ عدالت نے آرزو کی عمر 13 سال بتانے والی نادرا دستاویزات کو تسلیم کیا جو بادی النظر میں اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بچی کا نکاح کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 'عدالت نے اس درخواست کو خارج نہیں کیا اور اگلی سماعت دو ہفتوں کے بعد ہوگی، عدالت نے ابھی یہ طے نہیں کیا ہے کہ کیا آرزو مذہب کو آزادانہ طور پر تبدیل کرنے کے لیے خود ہی فیصلہ کیا جبکہ اس کی عمر 13سال ہے، اس وقت صرف چائلڈ میرج پر ہی سوال اٹھایا گیا ہے اور اس معاملے کو حل کر لیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی وزیر صحت کو ہدایت کی تھی کہ وہ آرزو کی عمر کا تعین کرنے کے لیے خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دے اور مبینہ اغوا، جبری تبدیلی مذہب اور شادی کے اس معاملے پر انسانی حقوق کی تنظیمیں سخت مشتعل ہوئی تھیں۔

مزید پڑھیں: کراچی: کم سن لڑکی آرزو کے 'اغوا' میں ملوث ملزم ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

ان کی شکایت پر مقدمے کی ایف آئی میں آرزو کے والد راجا نے بتایا کہ 13 اکتوبر کو وہ اور ان کی اہلیہ کام پر گئے تھے جب ان کا بیٹا شہباز اسکول گیا تھا، شکایت کنندہ نے بتایا کہ آرزو سمیت اس کی تین بیٹیاں کراچی کی ریلوے کالونی میں واقع اپنے گھر پر موجود تھیں جب اسے کسی رشتہ دار کا فون آیا جس نے اسے بتایا کہ آرزو لاپتا ہے۔

راجا نے بتایا کہ وہ گھر پہنچا اور اپنے پڑوسیوں سے رابطہ کیا لیکن اپنی بیٹی کا سراغ نہ لگا سکا، اس کے بعد اس نے فیریئر تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف اپنی بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کیا۔

اس ماہ کے شروع میں آرزو کے کنبے کے افراد نے ڈان کو بتایا کہ اس کا جعلی شوہر اظہر اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر کے سامنے ایک مکان میں رہتا تھا اور اس کی عمر کم از کم 45 سال ہے، لڑکی کی والدہ نے بتایا اس شخص نے جعلی کاغذات تیار کیے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ 18 سال کی ہے۔

پولیس نے لڑکی کے مبینہ شوہر سید علی اظہر کے خلاف کم سن بچی کو اغوا کرنے کے الزام میں اس کے بھائیوں سید شارق علی، سید محسن علی اور ایک دوست دانش کو گرفتار کیا تھا جن پر الزام تھا کہ انہوں نے لڑکی کو زبردستی اغوا کر کے اس کا مذہب تبدیل کرایا اور اس کی مسلمان شخص سے شادی کردی۔

ابتدائی طور پر آرزو اور اس کے شوہر نے سندھ ہائی کورٹ سے ایف آئی آر کے خلاف حکم امتنازع حاصل کرنے کی کوشش کی، انہوں نے درخواست میں عرض کیا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرلیا اور اپنے کنبے کے افراد سے بھی اسلام قبول کرنے کو کہا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔

اس نے بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے اظہر کے ساتھ بغیر کسی جبر اور خوف کے شادی کا معاہدہ کیا اور اسی وجہ سے اس کے کنبے کے افراد نے اس کی شریک حیات اور سسرال کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا ہے۔

لہٰذا 27 اکتوبر کو بینچ نے آرزو کی شریک حیات اور سسرالیوں کے خلاف ایف آئی آر میں کسی بھی شخص کی گرفتاری سے فریئر پولیس کو روک دیا تھا اور پریڈی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کو جوڑے کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بل پیش

اس کے بعد عدالتی مجسٹریٹ نے لڑکی کے اہل خانہ کی جانب سے اسے مبینہ شوہر کی تحویل سے شیلٹر ہوم بھیجنے کی درخواست کی جسے خارج کردیا گیا، لڑکی کے والدین نے دعویٰ کیا کہ وہ 13 سال کی تھی اور اغوا کے بعد زبردستی اسلام قبول کرایا گیا۔

دریں اثنا صوبائی قانونی افسر نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاکہ بچی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اسے شیلٹر ہوم کی دیکھ بھال میں رکھا جا سکے۔

بینچ نے 2 نومبر کو سماعت کے لیے درخواست اٹھائی اور پولیس کو بچی کی بازیابی اور اسے شیلٹر ہوم منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی، اس کے بعد پولیس نے اسی دن بچی کو بازیاب کر کے اسے شیلٹر ہوم منتقل کردیا جبکہ اظہر کو بھی تحویل میں لے لیا گیا اور اگلے ہی دن ایک مجسٹریٹ نے اسے تین دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

بعد ازاں 5 نومبر کو بینچ نے لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے سیکریٹری ہیلتھ کو میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی جس کے نتائج آج عدالت میں پیش کر دیے گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں