امریکا کی فائزر انکارپوریشن اور جرمنی کی بائیو این ٹیک کی کورونا ویکسین کے انسانی ٹرائل کے تیسرے اور آخری مرحلے کے ٹرائل کے نتائج رواں ہفتے سامنے آئے، جس میں وہ کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے 90 فیصد موثر قرار دی گئی۔

مگر کیا یہ ویکسین پاکستان میں اس وبا کی روک تھام میں مدد فراہم کرسکے گی؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر ایسا ممکن نہیں کیونکہ زیادہ گرم موسم، دور دراز علاقوں تک آبادیاں، بہت زیادہ ٹھنڈک فراہم کرنے والے فریزرز کی کمی اور ویکسین کی محدود دستیابی کے باعث پاکستان سمیت بیشتر ایشیائی ممالک اور ترقی پذیر اقوام کووڈ 19 کی وبا کی جلد روک تھام کے حوالے سے فائزر کی تجرباتی ویکسین پر انحصار نہیں کرسکتے۔

طبی ماہرین نے ابتدائی نتائج پر محتاط رویے کا اظہار کیا، جس کو ابھی منظوری کے عمل سے گزرنا ہے اور ویکسین کو اسٹور کرنے کے لیے منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے کم کی ضرورت ہوگی۔

اسٹوریج کی یہ شرط ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک کے بہت بڑا چیلنج ہوگی، جہاں موسم زیادہ گرم ہوتا ہے جبکہ انفراسٹرکچر کا معیار بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں، جس کی وجہ سے دیہی علاقوں اور جزائر میں ویکسین کے لیے کولڈ اسٹوریج انفراسٹرکچر کی تیاری بہت مشکل ہوگی۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تخمینے کے مطابق وبا کے خاتمے کے لیے 70 فیصد عالمی آبادی میں وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنا ضروری ہے۔

صرف ایشیا میں ہی 4.6 ارب سے زیادہ افراد موجود ہیں۔

کچھ ایشیائی ممالک ویکسینز کو جمع کرنے کی بجائے نوول کورونا وائرس کی روک تھام کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ دیگر فائزر کی میسنجر آر این اے ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کے متبادل کو تلاش کیا جارہا ہے، جس کے لیے بہت زیادہ ٹھنڈک فراہم کرنے والے اسٹوریج مقامات کی ضرورت ہوگی۔

80 فیصد ڈوز پہلے ہی فروخت ہوچکے ہیں

این پی آر کی رپورٹ کے مطابق فائزر کی جانب سے 2021 تک محدود تعداد (ایک ارب 30 کروڑ) میں ہی ویکسین کے ڈوز تیار کیے جائیں گے، اور ایک فرد کو 21 دوران کے دوران 2 ڈوز استعمال کرائے جائیں گے۔

یعنی ایک ارب 30 کروڑ ڈوز صرف 65 کروڑ افراد ہی استعمال کرسکیں گے، جبکہ کمپنی کی 80 فیصد سپلائی پہلے ہی امریکا، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا اور جاپان خرید کے ہیں۔

آسان الفاظ میں باقی ممالک بالخصوص غریب ملکوں کے لیے ویکسین کا حصول بہت مشکل ہوگا۔

واشنگٹن کے سنٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کی راکیل سلورمین نے این پی آر سے بات کرتے ہوئے کہا 'ترقی یافتہ ممالک میں تقسیم کے بعد ویکسین کی زیادہ مقدار باقی نہیں بے گی، غریب اور متوسط ممالک کے بیشتر افراد کے لیے یہ ویکسین دستیاب نہیں ہوگی، کم از کم اگلے سال کے آخر تک تو نہیں'۔

فلپائن کے سیکرٹری ہیلتھ فرانسکو ڈوکیو نے رائٹرز کو بتایا 'منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ کے کولڈ چین کی ضرورت بہت مشکل شرط ہے، ہمارے پاس ایسے مراکز نہیں، ہمیں ابھی انتظار کرنا ہوگا، فائزر کی جانب سے نئی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے، ہمارے پاس اس کا کوئی تجربہ نہیں، تو استعمال پر خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے'۔

فائرزر نے رائٹرز کو بتایا کہ وہ لاجسٹکس پلانز اور ویکسین کی ترسیل، اسٹوریج اور درجہ حرارت کی مسلسل مانیٹرنگ میں معاونت فراہم کرنے ٹولز کی تفصیلات پر کام کررہی ہے۔

کمپنی کے مطابق 'ہم ہیکجنگ اور اسٹوریج کے شعبوں میں جدت کے لیے بھی کام کررہے ہیں تاکہ مختلف مقامات پر ویکسینیشن کو یقینی بنایا جاسکے'۔

ترقی یافتہ ممالک بھی تیار نہیں

امیر ممالک جیسے جنوبی کوریا اور جنوبی کوریا بھی اس ویکسین کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں۔

ٹوکیو کے سینٹ لیوکز انٹرنیشنل ہاسپٹل میں انفیکشن کنٹرول منیجر فیومی ساکاموٹو کے مطابق 'اسٹوریج ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگی، مجھے نہیں لگتا کہ ہماری حکومت کولڈ اسٹوریج کے انتظام کے حوالے سے اچھی طرح تیار ہے، جاپان میں ہسپتالوں میں عموماً الٹرا کولڈ فریزر نہیں ہوتے، مگر میرے خیال میں ہمیں اب ویکسین کی لاجسٹک کے بارے میں سونا شروع کردینا چاہیے'۔

جاپان نے فائزر کی ویکسین کے 12 کروڑ ڈوز خریدننے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جبکہ چین نے بھی ہانگ کانگ اور مکاؤ کے لیے ایک کروڑ ڈوز خرید لیے ہیں۔

جنوبی کوریا کے ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن ایجنسی (کے ڈی سی اے) کے ایک عہدیدار کون جون ووک نے بتایا کہ وہ پہلے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ دیگر ممالک میں ویکسینیشن کیسے آگے بڑھتی ہے اور اس دوران سپلائی چین کا جائزہ لیا جائے گا۔

جنوبی کوریا میں حال ہی میں کولڈ اسٹوریج کے مسائل کے باعث فلو ویکسین کے 50 لاکھ ڈوز ضائع کرنا پڑے۔

2018 میں ادارے کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ 22 سو نجی کلینکلس میں سے صرف 25 فیصد کے پاس میڈیکل ریفریجریٹرز ہیں جبکہ 40 فیصد گھریلو فریج استعمال کررہے ہیں۔

کچھ ممالک تو اس ویکسین کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہے۔

انڈونیشیا 17 ہزار سے زیادہ جزائر پر مشتمل ملک ہے اور وہاں کے کووڈ 19 ریسپانس ٹیم کے سربراہ Airlangga Hartarto کے مطابق ہم متعدد اقسام کی کورونا ویکسینز پر غور کررہا ہے مگر فائزر کی ویکسین اس میں شامل نہیں۔

ویت نام نے بڑے پپیمانے پر ٹیسٹنگ اور سخت سرحدی کنٹرول کے ذریعے کورونا کی وبا پر قابو پایا اور وہ ویکسین کی بجائے روک تھام کی پالیسیوں پر ہی توجہ مرکوز کررہا ہے۔

پاکستانی ماہرین بھی اس ویکسین سے مطمئن نہیں

سائنس و ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے سربراہ پروفیسر عطا الرحمن نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہ فائزر کی کورونا ویکسین کولڈ اسٹوریج کی ضروریات کے باعث ترقی پذیر ممالک کے لیے موزوں نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے فائزر کے اعلان پر خوش ہونا قبل از وقت ہوگا۔

انہوں نے کہا 'اس ویکسین کو ایئرپورٹ سے شہروں اور ممالک تک پہنچانے کے لیے کولڈ اسٹوریج انفراسٹرکچر اور چینز ترقی پذیر ممالک میں موجود نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ اس ویکسین کے 2 ڈوز 21 دن کے وقفے میں درکار ہوں گے اور اس عرصے میں انتہائی کم درجہ حرارت میں اسے محفوظ رکھنا مشکل ترین ہوگا۔

اسی طرح کے جذبات کا اظہار وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کیا۔

انہوں نے ڈان کو بتایا 'یہ ویکسین کے لیے کولڈ چین کا ناتظام ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا، ہمارا کولڈ چین سسٹم ممکنہ طور پر اس درجہ حرارت پر کام نہیں کرسکے گی تو ہمیں ملک بھر میں اس کی سپلائی کے لیے نئے انتظامات کرنا ہوں گے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں