نظرِ ثانی کی ترمیم شدہ درخواستوں میں جسٹس عیسیٰ کیس کے فیصلے پر سوالات

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2020
سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق میں آخری مرتبہ 8 اگست 2009 کو ترمیم کی گئی تھی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق میں آخری مرتبہ 8 اگست 2009 کو ترمیم کی گئی تھی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترمیم شدہ درخواستوں میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے 7 ججز کی جانب سے دیے گئے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے استدلال اور نتیجے کو قبول کیا گیا۔

ترمیم شدہ درخواستیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، بلوچستان بار ایسوسی ایشن، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین شاہ نواز اسمٰعیل اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد آصف ریکی نے اپنے وکیل حامد خان کے ذریعے دائر کیں۔

یہ بھی پڑھیں: ججز اور مسلح افواج کے افسران پلاٹس کے حقدار نہیں، جسٹس عیسیٰ

ترمیم شدہ درخواست میں بحث کی گئی کہ آئین کے آرٹیکل کی دفعہ 209 کی شق نمبر 8 کے تحت سپریم کورٹ نہیں بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججز سے متعلق معاملات دیکھنے کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کرسکتی ہے۔

درخواست گازر کا کہنا تھا کہ اکثریتی فیصلے میں دوبارہ بیان کیے جانے والے ضابطہ اخلاق کے مطابق اگر جج اپنے اہل خانہ کے مالی مفاد سے متعلق معلومات فراہم نہیں کرتے تو یہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق میں آخری مرتبہ 8 اگست 2009 کو ترمیم کی گئی تھی لیکن اس میں بنگلور پرنسپلز شامل نہیں کیے گئے تھے جس کے مسودے میں تقریباً 9 سال پرانے ضابطے تھے۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ

بینگلور پرنسپلز کے مطابق جج کی اہلیہ، بیٹے، بیٹی، داماد، بہو اور دیگر قریبی رشتہ دار یا افراد جو ان کے ساتھ ہو یا ملازم ہوں اور ان کے گھر میں مقیم ہوں ان کے مالی معاملات کی معلومات درکار ہوں گی۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ درحقیقت بنگلور پرنسپل کی یونائیٹڈ نیشنز اکنامک اینڈ سوشل کونسل سے منظوری ضابطہ اخلاق کی آخری ترمیم سے 3 سال قبل ہوئی تھی اور یہ پرنسپلز خود اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قومی عدلیہ ان اصولوں کو اپنانے کا میکانزم فراہم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے۔

جسٹس عیسیٰ کیس فیصلہ

خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ کے 7 ججز نے مختصر حکم میں پیراگرافس 3 سے 11 کے ذریعے ریفرنس کالعدم قرار دے دیا تھا لیکن وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی دستخط شدہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کو جمع کروائیں، جس میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں سے لندن کی 3 جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع آمدن سے متعلق تفصیلات حاصل کرنے کے بعد کمشنر ان لینڈ ریونیو کی کارروائی کی تفصیلات شامل ہوں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل اپنے ازخود دائرہ کار کے اختیار کے تحت آئین کے آرٹیکل 209 کے مقاصد کے لیے کوئی ایکشن/کارروائی شروع کرسکتی ہے۔

مختصر فیصلے کے پیراگرافس 13 سے 14 کے مطابق جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم کردیا تھا جس کے ساتھ ہی جسٹس عیسیٰ کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری شوکاز نوٹس بھی غیر مؤثر ہوگیا تھا۔

ادھر اپنی نظرثانی درخواست میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اسے روکنے کی استدعا کی کیونکہ ان کے بقول ایف بی آر کمشنر ان کے خلاف نامناسب انداز میں جلدی سے کارروائی کر رہے ہیں۔

انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ ’آف شور ایویڈر‘ اور ’آف شور اثاثے‘ کی اصطلاح 30 جون 2019 کو شائع ہونے والے فنانس ایکٹ 2019 مین پہلی مرتبہ متعارف کروائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ انہوں نے 2018 اور 2019 کے لیے اپنے ٹیکس ریٹرنس میں 3 آف شور جائیدادیں ظاہر کی تھی، جو قانون میں تبدیلی کے بعد ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اسے ظاہر کریں اور اس تاریخ کے بعد سے انہیں ٹیکس سال یا ٹیکس ریٹرن سے متعلق کوئی ایک نوٹس بھی نہیں موصول ہوا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل (3) 184کے تحت 19 جون کا حکم جاری کرتے ہوئے مؤثر طریقے سے لوگوں کا ایک طبقہ تشکیل دیا اور اس طبقے میں شامل انفرادی شہریوں کے نجی اور خفیہ معاملات کو ’عوامی اہمیت‘ کے معاملات کے طور پر بیان کیا۔

علاوہ ازیں اکثریتی تفصیلی فیصلہ، جو جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا تھا، اس میں قرار دیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کہ جواب دہندگان (فریقین) نے جسٹس عیسیٰ کے ٹیکس ریکارڈز تک غیرقانونی رسائی حاصل کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں