سندھ حکومت نے ’کراچی واقعے‘ کی تحقیقات مکمل کرلی

14 نومبر 2020
سندھ حکومت کی کمیٹی نے اپنی انکوائری کے دوران اس معاملے سے وابستہ لوگوں کسی شخص کا انٹرویو نہیں کیا، رپورٹ — فائل فوٹو:ڈان نیوز
سندھ حکومت کی کمیٹی نے اپنی انکوائری کے دوران اس معاملے سے وابستہ لوگوں کسی شخص کا انٹرویو نہیں کیا، رپورٹ — فائل فوٹو:ڈان نیوز

کراچی: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ’کراچی واقعے‘ پر ’حد سے تجاوز‘ کرتے ہوئے کام کرنے پر انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور پاکستان رینجرز، سندھ کے چند افسران کی برطرفی کے بارے میں اعلان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے حکام اور ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت سندھ نے بھی اپنی انکوائری مکمل کرنے کا دعوٰی کیا ہے اور وہ حتمی رپورٹ لکھنے کے عمل میں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے 22 اکتوبر کو پاکستان مسلم لیگ نواز (مسلم لیگ ن) کی رہنما مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری اور ’پولیس کی اعلی قیادت‘ کو مبینہ اغوا کی تحقیقات کے لیے وزارتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

صوبائی محکمہ داخلہ کی طرف سے نوٹیفائی کی گئی کمیٹی کو اس واقعے کی تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا جو کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف 18 اکتوبر کو بریگیڈ پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر (561/2020) سے متعلق تھا۔

مزید پڑھیں: 'کراچی واقعے' پر افسران نے زیادہ ہی جوش کا مظاہرہ کیا، آئی ایس پی آر

کسی عہدیدار سے انٹرویو نہیں لیا گیا

دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کی کمیٹی نے اپنی انکوائری کے دوران تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصے تک اس معاملے سے وابستہ لوگوں کے بیانات، سرکاری یا عام افراد کا انٹرویو نہیں کیا۔

واضح رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ اگر کمیٹی طلب کی گئی تو وہ کمیٹی میں پیش ہوں گے۔

کمیٹی کے کام کی معلومات رکھنے والے ایک ذرائع نے بتایا کہ ’کمیٹی نے کسی پولیس اہلکار یا دیگر افراد کا انٹرویو نہیں لیا، اس نے مکمل طور پر شواہد پر انحصار کیا اور تکنیکی طور پر اس معاملے کو دیکھا، یہ مختلف وسائل سے اکٹھا ہونے والے شواہد کی بنیاد پر اپنے نتیجے پر پہنچی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کمیٹی کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر یہ کام مکمل کرے اور اس کے بہت قوی امکانات ہیں کہ اسے ڈیڈ لائن میں توسیع کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی‘۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتی معاونین نے ’کراچی واقعے‘ پر تنازع کھڑا کردیا

وزیر تعلیم سعید غنی کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی میں وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ، وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ، وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ اور وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے قانون بیرسٹر مرتضی وہاب شامل ہیں۔

جب بیرسٹر مرتضیٰ وہاب سے رابطہ کیا گیا تو وہ مطمئن دکھائی دیے کہ کمیٹی ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگی۔

انہوں نے ڈان کو اپنے مختصر ردعمل میں بتایا کہ ’کمیٹی کا نوٹیفکیشن 22 اکتوبر کو 30 دن کی مدت میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی واضح ہدایت کے ساتھ جاری کیا گیا تھا، ہم امید کرتے ہیں کہ آخری تاریخ تک کام مکمل ہوجائے گا‘۔

پی ٹی آئی تحقیقاتی رپورٹ کی منتظر

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اس معاملے پر پاک فوج کے فیصلے کی تعریف کے بعد پاکستان تحریک انصاف ان سیاسی جماعتوں میں شامل ہے جسے حکومت سندھ کی اس رپورٹ کا بے حد انتظار ہے۔

پی ٹی آئی کے کراچی کے صدر ایم پی اے خرم شیر زمان نے کہا کہ ’اس معاملے میں مسلح افواج نے اپنا کام کرلیا ہے، ہمارے ان (پی پی پی کی حکومت) کے ارادوں اور کارکردگی پر تحفظات ہیں لیکن پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ وہ حتمی رپورٹ لے کر آئیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو یہ بھی بتائے کہ واقعی مزار قائد پر کیا ہوا تھا، عوام ایک حقیقی تصویر چاہتے ہیں اور کسی کو بھی کسی کے سیاسی مفادات کے لیے آدھے سچ کے ساتھ سامنے نہیں آنے دیں گے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں