لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

اگر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی قیادت کی جانب سے آنے والے مبہم اور متضاد بیانات کسی حکمتِ عملی کے تحت دیے جارہے ہیں تو بات اور ہے، لیکن اگر یہ بیانات بنیادی مسائل پر اس اتحاد کی قیادت کے درمیان اختلافات کا نتیجہ ہیں تو پھر معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔

گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات کی مہم بلاول بھٹو زدرادی اور مریم نواز شریف دونوں ہی بہت جوش و خروش سے چلا رہے تھے۔ اس انتخابی مہم کے آغاز سے ہی کچھ ایسے بیانات اور انٹرویو آنے لگے تھے جن سے معلوم ہو رہا تھا کہ بیان دینے والے ایک صفحے پر نہیں ہیں۔

سب سے پہلے تو بلاول نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے اس بیان کی مخالفت کی جس میں انہوں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پر ان کی حکومت کو کمزور کرنے اور عمران خان کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا الزام لگایا تھا۔

مزید پڑھیے: موجودہ سیاسی صورتحال میں مذاکرات ناگزیر کیوں؟

ساتھ ہی بلاول نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ نواز شریف کو اس بات کا حق ہے کہ وہ جو چاہیں کہیں اور جس طرح چاہیں کہیں۔ بلاول نے کہا کہ اگرچہ وہ دونوں اتحادی ہیں لیکن ان کی اپنی علیحدہ سیاسی جماعتیں ہیں اور وہ نہ ہی ایک دوسرے کے لیے الفاظ کا چناؤ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کو کچھ کہنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

جب آئی ایس پی آر نے آئی ایس آئی اور رینجرز کی جانب سے آئی جی سندھ کے اغوا اور پھر ان پر کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے لیے دباؤ ڈالنے کے معاملے پر کمانڈر 5 کور کی تحقیقات کو پبلک کیا تو اس موقع پر بھی دونوں جماعتوں کی جانب سے آنے والا ردِعمل مختلف تھا۔

بلاول نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بحیثیت ادارہ فوج کی ساکھ کو فائدہ پہنچے گا۔ دوسری جانب نواز شریف نے اس رپورٹ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ اس رپورٹ کے ذریعے اس واقعے کے پیچھے موجود اعلیٰ افسران کو بچالیا گیا ہے اور جونئیر افسران کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔

مریم نواز کی جانب سے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کی وجہ سے بھی یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ مریم نواز کے اپنے بیانیے میں کچھ نرمی پیدا ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ’میری فوج‘ ہے اور انہیں ’کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے کے بعد‘ آزاد اور شفاف مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اس کے اگلے ہی دن سوات میں جمع ہونے والے اپنے حمایتیوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے اپنے بیانیے کو دوبارہ دہرایا، اور میرے خیال سے اس کی وجہ بھی تھی۔

مزید پڑھیے: میاں صاحب اور ان کی بیٹی پارٹی کو کہاں لے جارہے ہیں؟

نواز شریف کو اس بات کی پوری معلومات ہیں کہ ان کا بیانیہ پنجاب میں مقبول ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ اس بیانیے کی حمایت کرنے والے افراد پورے ملک کے عکاس ہیں۔ ان حمایتیوں میں ایک بڑا حصہ ایسے پُرجوش نوجوانوں پر مشتمل ہے جو اپنے قائد اور ان کے بیانیے کا ساتھ دینے کے لیے بہت پُرعزم ہیں۔

شاید جن لوگوں کے ذمے زمینی حقائق پر نظر رکھنا ہے ان کے سامنے بھی یہ حقیقت آچکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایک عہدے دار کی جانب سے ایک وسیع قومی مذاکرات کی ضرورت کو تسلیم کرنا اسی بات کا ایک اشارہ تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق خیالات میں یہ تبدیلی زمینی حقائق میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے، اور زمینی حقائق تبدیل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ اور ان کی جارحانہ حکمتِ عملی ان کے حمایتیوں اور خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے حمایتیوں میں مقبول ہورہی ہے۔

نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے عزائم کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، ناجانے ان کی حکمتِ عمل طویل مدت میں کیا رنگ لائے گی۔ تاہم قلیل مدت میں اس حکمتِ عملی کی وجہ سے حکومتی وزرا میں شدید اضطراب موجود ہے اور اس کا اظہار ان کے بیانات میں بھی ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر مذکورہ اسٹیبلشمنٹ عہدیدار کے خیالات کو ان کے ذاتی خیال کی بجائے کسی حقیقی تبدیلی کا اشارہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں بدلتے ہوئے موسم کے ساتھ سیاسی صورتحال بھی دلچسپ ہوجائے گی۔ آخر کون جانتا ہے کہ مستقبل میں ہم کون کون سے سیاسی کھیلوں اور محلاتی سازشوں کو ہوتا ہوا دیکھیں گے۔

تباہ ہوتی ہوئی معیشت، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گیس، غذائی اشیا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت بھی حکومت کی پشت پناہی کرنے والوں پر دباؤ ڈالے گی۔ اس وقت خارجہ محاذ بھی گرم ہے، ایک طرف امریکا میں نیا صدر منتخب ہوا ہے تو دوسری طرف مودی کے جارحانہ عزائم بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔

اگرچہ ہر طرف سے قومی مذاکرات کی بات ہورہی ہے لیکن اب بھی مستقبل کا کوئی تبدیل شدہ اور واضح منظرنامہ ہمارے سامنے نہیں آرہا اور نہ ہی ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر اس تبدیل شدہ منظرنامے کو کس حد تک منظور کریں گے۔

اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران شاہد خاقان عباسی وہ واحد سیاستدان تھے جنہوں نے ملکی سیاست کے تمام کرداروں کے ساتھ بات چیت پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ موجودہ ترتیب کارگر ثابت نہیں ہورہی اور یہ بار بار ناکام ہوگی۔

شاہد خاقان عباسی سے بہت پہلے یہ بات بے نظیر بھٹو نے بھی کی تھی۔ انہوں نے بھی ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ سماجی معاہدے کی اس اصطلاح کو نواز شریف بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: کیا نواز شریف پنجاب کے بھٹو ثابت ہوں گے؟

کم از کم سیاستدان اس بات پر تو یکسو ہیں کہ ان کا مطالبہ کیا ہے اور وہ مذاکرات کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ آزاد اور شفاف انتخابات کروائے جائیں اور جمہوریت کی بنیاد یعنی سویلین بالادستی کے اصولوں کا احترام کیا جائے۔

یہ اصول عالمی طور پر تو تسلیم شدہ ہیں لیکن ہمارے یہاں اس کے کئی ثبوت موجود ہیں کہ کچھ اداروں میں اس اصول کی کتنی توہین کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذاکرات ہوتے ہیں تو کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی کسی بات کو تسلیم کریں گے؟

اسی طرح یہ سوال بھی موجود ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی کتنی نرمی دکھائی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ کوئی سیاستدان بھی ماحول گرما کر اور سڑکوں پر نکلنے کے بعد مذاکرات کی میز پر اپنے مطالبات اور مفادات سے دستبردار نہیں ہوگا۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر کوئی معاہدہ ہو بھی گیا تو اس کا ضامن کون ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو مذاکرات کی راہ میں ممکنہ رکاوٹوں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اگر ہمیں حالات کے موجودہ دلدل سے باہر آنا ہے تو ان سوالات کے جوابات فوری طور پر ڈھونڈنے ہوں گے۔ شاید حزبِ اختلاف کے معتدل سیاستدان ممکنہ مذاکرات کو شروع کرواسکیں۔


یہ مضمون 15 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں