لاہور ہائیکورٹ نے صحافی اسد علی کے خلاف ایف آئی آر غیر ضروری قرار دے دی

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2020
صحافی اسد علی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی ہیں —  فائل فوٹو: فیس بک
صحافی اسد علی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی ہیں — فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد: لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے صحافی اسد علی تور کے خلاف درج کی جانے والی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کو غیر ضروری قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ کے جسٹس صادق محمد خرم کے سامنے اسد علی تور کی نمائندگی کرنل (ر) انعام الرحیم اور ایمان زینب ہازر-مزاری نے کی، اس کے علاوہ صحافیوں کے دفاع کے لیے قائم پاکستان بار کونسل پی بی سی کی کمیٹی کے رکن اور ممتاز وکلا عمر گیلانی، امتیاز حیدر اور سکندر نعیم قاضی شامل بھی صحافی اسد علی تور کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے۔

یاد رہے گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے راولپنڈی میں صحافی کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے فوج کو 'بدنام' کرنے کے مقدمے میں اسد علی تور کی حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے کسی صحافی، رضاکار کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا، وفاقی وزیر

یہ مقدمہ راولپنڈی کے جٹلی تھانے میں نصیرآباد کے رہائشی حافظ احتشام کی شکایت کے جواب میں درج کیا گیا تھا۔

واضح رہے یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 499 (ہتک عزت)، 500 (بدنامی کے لیے سزا) اور 505 (بدعنوانی پر مبنی بیانات) اور پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 کی دفعات 11، 20 اور 37 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

مزید یہ کہ ایف آئی آر کے مطابق سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اسد علی کافی عرصے سے مبینہ طور پر پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کررہے تھے۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ انہوں نے گزشتہ کچھ دنوں میں اپنی پوسٹس میں مبینہ طور پر افواج پاکستان سمیت اداروں کے خلاف غلط زبان کا استعمال کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پولیس نے ایکسپریس ٹریبیون کے صحافی بلال فاروقی کو رہا کردیا

خیال رہے صحافیوں کے خلاف مقدمات کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے اس سے قبل بھی صحافیوں کو کیسز کا سامنا رہا ہے۔

اس سے قبل انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سینئر صحافی بلال فاروقی کو مبینہ طور پر 'پاک فوج کی تضحیک' کے الزام میں ڈی ایچ اے کراچی میں واقع ان کے گھر سے ڈیفنس پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

ایک شہری کی شکایت پر بلال فاروقی کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 500 اور 505 اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی دفعہ 11 اور 12 کے تحت ان کے خلاف ایف آئی درج کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سال 2019 بھی پاکستان میں آزادی صحافت اور صحافیوں کیلئے پریشان کن رہا!

مزید یہ کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کے خلاف بھی پنجاب پولیس نے پاکستان فوج کے خلاف اکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست بھی دی گئی تھی۔

ان کے خلاف ایف آئی آر چوہدری نوید احمد کی شکایت پر درج کی گئی تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ابصار عالم نے وزیر اعظم عمران خان اور پاک فوج کے خلاف ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر 'انتہائی نازیبا' زبان استعمال کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ 'غداری' کے مترادف ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں