پاکستان کیلئے دشمنی کا اظہار بھارت میں قومی اتحاد کا آسان راستہ ہے، اوباما

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2020
اے پرامس لینڈ کے عنوان سے باراک اوباما کی کتاب 17 نومبر کو پوری دنیا میں جاری کی گئی —فائل فوٹو:اے ایف پی
اے پرامس لینڈ کے عنوان سے باراک اوباما کی کتاب 17 نومبر کو پوری دنیا میں جاری کی گئی —فائل فوٹو:اے ایف پی

واشنگٹن: سابق امریکی سیاہ فام صدر باراک اوباما نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بھارت میں قومی اتحاد کا ایک آسان راستہ 'پاکستان کے لیے دشمنی کا اظہار' ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 'اے پرامس لینڈ' کے عنوان سے باراک اوباما کی کتاب 17 نومبر کو پوری دنیا میں جاری کی گئی جس میں سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کا پین سے بنایا گیا پورٹریٹ بھی شامل ہے جن سے سابق امریکی صدر پٹبرگ میں جی 20 کے 2009 میں ہونے والے اجلاس میں پہلی مرتبہ ملے تھے۔

جب باراک اوباما نے نومبر 2010 میں بھارت کے پہلے کے دوران دوبارہ من موہن سنگھ سے ملاقات کی تھی تو بھارتی وزیراعظم نے بتایا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ مسلمان مخالف جذبات نے اس وقت کی اپوزیشن جماعت ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اثر کو مضبوط کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو اسامہ کے خلاف کارروائی کی خبر دینا سوچ سے زیادہ آسان تھا، باراک اوباما

امریکا کے سابق صدر نے لکھا کہ 'بہت سے بھارتی سے اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے ملک کے پاکستان کے مقابلے میں نیوکلیئر ہتھیاروں کا پروگرام بنا رکھا ہے اور وہ اس حقیقت سے ذرا بھی پریشان نہیں کہ دونوں میں سے کسی کی جانب سے بھی معمولی غلطی خطے کو تباہ کرنے کا خطرہ بن سکتی ہے'۔

انہوں نے لکھا کہ عوامی اور نجی سطح پر تشدد بھارتی زندگی کا بہت بڑا حصہ ہے اور پاکستان کے لیے دشمنی کا اظہار قومی اتحاد کا آسان ترین راستہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بھارتی سیاست اب تک سب سے زیادہ مذہب، قبیلوں اور ذاتوں کے گرد گھومتی ہے'۔

تاہم باراک اوباما کا ساتھ ہی یہ بھی کہنا تھا کہ 'بہت سے پہلو میں جدید دور کا بھارت حکومت میں متعدد تبدیلیوں، سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات، متعدد علیحدگی پسند عسکری تحریکیں اور ہر طرح کے بدعنوانی کے اسکینڈلز کے باوجود کامیابی کی کہانی سناتا ہے'۔

مزید پڑھیں: بھارت میں مقبولیت بڑھانے کا آسان طریقہ پاکستان دشمنی ہے، شاہ محمود قریشی

ان کا کہنا تھا کہ 'حقیقی معاشی ترقی کے باوجود بھارت بڑی حد تک ایک منتشر اور غریب ملک ہے جو زیادہ تر مذہب اور ذاتوں میں تقسیم، بدعنوانی مقامی حکام اور طاقت کے دلالوں کی خواہشات کا اسیر اور مقامی بیوروکریسی کے باعث مفلوج ہے جو کہ تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کرتی ہے'۔

بھارت میں تشدد کے پھیلاؤ پر تبصرہ کرتے ہوئے باراک اوباما نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا تشدد، لالچ، بدعنوانی، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی عدم برداشت اتنا مضبوط ہوسکتا ہے کہ کوئی جمہوریہ اس پر مستقل طور پر قابو نہ پاسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی ترقی کی شرح رک جاتی ہے یا آبادیاتی تبدیل ہوتی ہے یا پھر جب ایک کرشماتی رہنما لوگوں کے خوف اور ناراضی پر سوار ہونے کا انتخاب کرتا ہے تو تشدد پر یقین رکھنے والے ہر جگہ منظر عام پر آنے کے منتظر رہتے ہیں۔

باراک اوباما نے لکھا کہ بھارت کیا میری سوچ میں ہمیشہ ایک خصوصی مقام تھا، اس دلچسپی کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'شاید یہ اس کی وجہ ہے کہ بھارت میں دنیا آبادی کا چھٹا حصہ ہے جس میں 2 ہزار مختلف نسلی گروہ آباد ہیں اور 700 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: ’طالبان کا عروج بھارت کیلئے افغانستان میں تابوت کی آخری کیل ثابت ہوگا‘

انہوں نے مزید لکھا کہ 'لیکن سب سے زیادہ میری بھارت کے لیے دلچسپی کی وجہ مہاتما گاندھی ہیں، ابراہم لنکن، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا کی طرح گاندھی نے بھی میری سوچ کو بہت متاثر کیا۔

باراک اوباما نے تذکرہ کیا کہ ان کے بھارتی اور پاکستانی دوست، جنہوں نے مجھے دال قیمہ پکانا اور بالی ووڈ فلموں سے روشناس کرایا وہ بھی میری بھارت میں دلچسپی کی وجہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن یہ سب ان بڑے مسائل کو نہیں چھپا سکتا جس کا دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کو سامنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں