اللسٹریشن -- صابر نذر --
اللسٹریشن -- صابر نذر --

بعض اوقات جو چیزیں آپس میں بالکل غیر متعلقہ نظر آتی ہیں انہی کے درمیان بہت سی باتیں مشترک ہوتی ہیں-

ادھر سپریم کورٹ صدارتی الیکشن شیڈول کے ساتھ وقت ضائع کر رہی تھی اور ادھر آئ ایس آئ پر سکھر میں حملہ ہوا- دو بلکل مختلف واقعات جن کے درمیان کچھ بھی مشترک ہونا نا ممکن ہے، ٹھیک؟

غلط، وہ مشترکہ واسطہ مذہب کا ہے، یا مذہبی جنوں کہنا زیادہ درست ہوگا- مذہبیت ویسے ہی بڑا دشوار مسئلہ ہے لیکن اس کے روز بروز بڑھتے جنون کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی اسے پیچھے دھکیلنے کی ہمّت نہیں نہیں رکھتا-

عدلیہ سے شروع کرتے ہیں- اب تک ہم یہ جان گۓ ہیں کہ صدارتی انتخابات کو تیز کرنے کا فیصلہ انتہائی متنازعہ تھا- اور ان وکیلوں اور سیاست دانوں کے مطابق جنہوں نے علی الاعلان اس کے انتہائی متنازعہ ہونے کی وجہ بتائی ہے وہ یہ ہے کہ؛

1) عدالت نے صرف پی ایم ایل- این کی سنی. 2) اس فیصلے کا حق صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کا تھا-

مگر یہ سچ نہیں-

عدلیہ ایک عرصے سے اپنی ایک فیصلہ ساز حیثیت قائم کرنے کے لئے بیتاب ہے- اگر کوئی تنازعہ سامنے ہو اور اس سے تھوڑی شہرت کی بھی امید ہو تو چودھری صاحب کی عدالت فوراً مداخلت کرتی ہے اور سب کو یہ جتا دیتی ہے کہ باس کون ہے-

اسی طرح سے یہاں سب کچھ چلتا رہا ہے اور اسی طرح چلتا رہے گا، دسمبر تک-

اصل مسئلہ وہ دلیلیں ہیں جو عدالت استعمال کرتی آرہی ہے --اور اب پیٹرن تیار کرنے کے لئے فیصلوں کی ایک لمبی لسٹ ہے-- جو زیادہ سبق آموز اور تشویشناک ہے-

سب سے اہم، عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ عید اپنے آبائی علاقوں میں گزارنا، عمرے پر جانا یا پھر رمضان کے آخری دن اعتکاف --جو کہ سراسر آپشنل ہے-- میں گزارنا قانون سازوں کا بنیادی حق ہے جس کی ضمانت آئین دیتا ہے.

اور ہمارے قانون سازوں کے یہ نو تراشیدہ حقوق انتے اہم ہیں کہ انہوں نے قانون سازوں کے صدر مملکت منتخب کرنے کے آئینی فرض پر بھی برتری حاصل کرلی ہے- کیا بے تکی بات ہے، آئین ایسا کچھ نہیں کہتا-

یہی وجہ ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے کا کوئی جواز پیش کرنے کی زحمت نہیں کی، کیوں کہ ایسا کوئی جواز ہے ہی نہیں جو قانونی اور آئینی طور پر تسلیم کیا جا سکے- لیکن ایک جواز ایسا ہے جس کو کہیں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور جس پر تنقید ممکن ہی نہیں: مذہب-

توجہ سے سنیں کہ عدالتی حکم پر کیا تنقید کی گئی ہے- لوگوں نے علی الاعلان یہ کہہ کر کہ عدلیہ نے سیاسی فیصلہ دیا ہے، اپنے اوپر توہین عدالت کا ہتھوڑا پڑنے کا خطرہ مول لیا ہے-

لیکن کسی نے بھی فیصلے کی جڑ میں موجود مذہبیت کی بےتکی منطق کو چیلنج کرنے کی ہمّت نہیں کی- ستائیس رمضان عوامی چھٹی نہیں ہوتی- تمام کام معمول کے مطابق ہوتا ہے یا جتنا معمول کے مطابق اس دن پاکستان میں کام ہو سکتا ہے، کر ہی لیا جاتا ہے-

جب ہر کسی کو ہر سال 27 رمضان کو کام کرنا پڑتا ہے تو پھر یہ بنیادی حق کیا ہے جو ہمارے منتخب نمائندوں کو اپنے کام سے چھٹی کی اجازت دیتا ہے، وہ بھی صدر مملکت کے انتخاب جیسا اہم کام جو محترم نمائندوں کو اپنی پانچ سالہ مدت میں صرف ایک بار ہی کرنا تھا!؟

اور اگر اس سال 27 رمضان پر ہمارے منتخب نمائندوں کو چھٹی کا حق حاصل ہے تو ہر سال ہم سب کو یہ حق ملنا چاہیے-

کبھی کسی کو اس غریب پر ترس آیا جسے عید کے دن ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنا پڑتا ہو، یا وہ جو فضائی ٹریفک کنٹرول کرتا ہو یا وہ جو میدان جنگ میں ہو؟ کبھی اس گارڈ کے لئے کبھی کسی کو افسوس ہوا جسے افطار کے وقت بھی کام کرنا پڑتا ہے؟

خیر، ہو سکتا ہے انہوں نے اس بارے میں سوچا ہی نا ہو لیکن سپریم کورٹ کے پاس شائد ان کے لئے نجات کا راستہ ہو...

اب چلتے ہیں سکھر اور آئ ایس آئ پر حملے کی طرف-

تو منظر کچھ یوں ہے: بارود سے بھرا ٹرک تیزی سے سکھر کے راستے ہائی سیکورٹی زون --نام نہاد-- میں اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھ رہا ہے- ٹرک کے سواروں نے خودکش جیکٹیں پہنی ہوئی ہیں اور گرینیڈ کے بیگ انکے پیروں کے پاس رکھے ہوئے ہیں- ٹرک کے ساتھ موٹر بائیکوں پر گن بردار بھی چل رہے ہیں-

اگر کوئی اور دن ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ انہیں ٹارگٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی روک دیا جاتا- لیکن اگر وقت افطار کا ہے، تو ہمارے اس کاروان کو تقریباً یقین ہے کہ اسے روکا نہیں جاۓ گا- اور یہ بھی کہ جب وہ اپنی منزل پر پہنچے گا تو کوئی اس کے خلاف دفاع کے لئے تیار نہیں ہو گا-

کیوں؟ کیوں کہ یہ افطار کا وقت ہے اور روزہ کھولنا اور وہ بھی گروپ کے ساتھ کھولنا ایک رسم ہے جو انکو دی گئی تمام تربیت پر پانی پھیر دیتی ہے، حد یہ کہ اپنی جان کے تحفّظ سے بھی غافل کردیتی ہے-

اور کوئی اس بارے میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتا- بہت ہوا تو کوئی مائکروفون یا کیمرے پر آ کر دہشگردوں کو وقت افطار کے غیر تحریر شدہ اصول کا احترام نہ کرنے پر لعنت ملامت کردے گا-

شائد ہی کوئی سوال کرنے کی جرأت کرے لیکن کوئی بھی ان گارڈز کی کھنچائی کرنے کی ہمّت تک نہیں کرے گا جو اپنی اور دوسروں کی حفاظت پر مامور تھے اور ایسے وقت میں ناکام ہوگۓ جب خطرہ عروج پر تھا اور انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق ہائی الرٹ بھی آن تھا-

ایسا محض اس لئے ہوتا ہے کہ معاشرے میں ایسے لوگوں کے لیے بڑی ہمدردی ہے جو اپنے مذہبی فریضے روایتی انداز میں ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں-

اپنے فرائض سے کوتاہی --یا کم از کم غفلت-- پر جائز غصّے کا اظہار --جس کی بنا پر دہشتگردوں کو قتل و غارت اور ملک کو ایک اور نفسیاتی جھٹکا پہچانے کا موقع مل-- پر تنقید کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں.

بات سیدھی سی ہے، وہ، گارڈز صرف اچھا مسلمان بننے کی کوشش کر رہے تھے- اس پر دنیا کے کسی بھی فرض کو برتری حاصل نہیں- چاہے اس کے نتیجے میں جتنے بھی لوگ مریں جتنی بھی تباہی ہو!

مذہبیت نے مکمّل غلبہ حاصل کر لیا ہے، اور اس حوالے سے کوئی کچھ نہیں کر سکتا-

جیسے یہاں تک ہمیں ایک ضیاء الحق نے پہنچایا، ویسے ہے یہاں سے واپس بھی کوئی ضیاء مخالف ہی لے جا سکتا ہے- لیکن، اب، اس جگہ پر اینٹی ضیاء، آج کے زمانے میں؟


مصنف ایک اسٹاف ممبر ہیں ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (3) بند ہیں

Farrukh saleem Aug 07, 2013 06:27pm
If I am not wrong Pakistan came in to being on 27th Ramzan, if i am right. Asked the Muslim Leage(N) leader ship & Supreme Court to condemn the Jinnah decision to why he singed the independence declaration on 27th Ramzan. This is not the fact the fact is that when ever we stuck up in any issue we use islam for our own good. As far as CJ is concern he is greedy of fame sorry for him.
hafiz Aug 08, 2013 01:26pm
یہ جملہ کہنے پر کہ ----جیسے یہاں تک ہمیں ایک ضیاء الحق نے پہنچایا، ویسے ہے یہاں سے واپس بھی کوئی ضیاء مخالف ہی لے جا سکتا ہے- لیکن، اب، اس جگہ پر اینٹی ضیاء، آج کے زمانے میں؟---- اگر میں چیف آف----اسٹاف ہوتا تو جنرل مشرف کی توہین کرنے پراس مضمون نگار کو ضرور کسی ٹارچر سیل منتقل کردیتا یا کم ازکم گمشدوں کی لسٹ میں تو اس کا نام ضرور بالضرور آہی جاتا.
Mohammed Basheer Aug 10, 2013 02:57am
واہ کیا بکواس کی ہے- آپکو ضیاء مخالفت پر لکھنا ہے لکھیں دہشت گردی پر لکھنا ہے لکھیں لیکن انسانی غفلت کو مذہب کی دین کیون ثابت کرنا چاہتے ہین آجکل آک خبط ساہوگیا ہے کہ جو زیادہ مذہبی ہے کا مطلب انتہائی لاپرواہ یا احمق یا بیکار فضول ہوتا ہے- ایک منظر دکھاتا ہوں کبھی حرم شریف کی نماز دیکھئے یا جمعہ کی نماز دیکھئے امام صاحب نماز پڑھا رہے ہوے ہین اور محافظ حفاظت پر قایم ہوتے ہین حالانکہ جمعہ کی نماز جماعت میں ہی پڑھی جاتی ہے اور الگ جماعت بھی نہین ہوتی روز مرہ کی نمازوں کی طرح یہ مضمون نگار عقل سے عاری فہم و ادراک سے تو کوئی واسطہ ہی نہین اورعام مسلمان کے بارے میں کوئی واقفیت رکھتا ہی نہی